ملک کا سب سے پچھڑا علاقہ، میوات میں پرورش پائیں رضیہ بانو نے لوگوں کے طعن و تشنہ کو برداشت کرکے اپنے والد کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے تایکوانڈو میں مہارت حاصل کی اور 33 میڈلز حاصل کیے۔
معاشرے کی محدود ذہنیت کی وجہ سے رضیہ کو اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے علاقہ میں رہنا پڑا۔
معاشرتی جنگ کے باوجود رضیہ کا ارادہ اس قدر مستحکم تھا کہ انہوں نے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک میں بھی طلائی تمغہ حاصل کیا۔
سماج کے ساتھ رضیہ کو حکومت سے بھی سوتیلے برتاؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک اور بیرون ممالک میں بھارت کا نام روشن کرنے والی رضیہ کو حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔
رضیہ کا کہنا ہے کہ 'شاید ان کا مسلمان ہونا ہی حکومت کو کھٹکتا ہے اسی لیے انہیں ابھی تک کوئی مدد نہیں ملی۔ جبکہ اگر وہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتیں تو انہیں حکومت اب تک کوئی نہ کوئی ملازمت کا آفر کر چکی ہوتی۔
ابھی فی الحال رضیہ بانو کشتی کے میدان میں محنت کر رہی ہیں کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اس میدان میں حکومت کی نظر کرم ان پر ہو جائے۔