ریاست ہریانہ میں اتحادی حکومت کے درمیان رسہ کشی کی خبر ہے کیوں کہ ریاست کے وزیر داخلہ کا واضح طور پر کہنا ہے کہ ملزمین کو بخشا نہیں جائے گا۔ انل وج نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ شعبہ آبی وسائل میں ذمہ عہدے پر مامور اور نائب وزیر اعلی دشینت چوٹالا نے ان سے ابھی تک کوئی بات نہیں کی ہے۔
ملک بھر میں جاری کورونا وائرس کے قہر کے تئیں ہریانہ حکومت کی توجہ منتشر ہو رہی ہے۔ دوسرے لاک ڈاؤن تک جو حکومت محض کورونا کے خلاف دن رات جنگ لڑ رہی تھی اب وہی حکومت غیر قانونی شراب کی سمگلنگ کی پیچیدگی کو سلجھانے میں مصروف ہے۔ اس دوران وزرا کے درمیان ذہنی ہم آہنگی بھی نظر آ رہی ہے۔
ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج بدعنوانی کے خلاف اپنے سخت رخ کے لیے جانے جاتے ہیں اور اس وقت غلطی انہیں کی وزارت کے عہدے داران نے کی ہے۔ جس پر وزیر داخلہ نے دو ملزمان ایس ایچ اور پر سخت کاروائی کا حکم جاری کر چکے ہیں۔ اس دوران اب اتحادی حکومت کے درمیان رسہ کشی کی بھی خبر ہے۔ ایسا اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ریاست کے کھرکھودا میں واقع دو گودام، جہاں شراب رکھی گئی تھی وہاں سے بڑی مقدار میں شراب غائب ہو گئی جس پر شعبہ آبی وسائل تا حال کوئی مزبوط بیان جاری نہیں کیا ہے۔
معاملہ جب وزیر داخلہ انل وج کی نوٹس میں آیا تو انہوں نے اپنے متعارف انداز میں ایکشن لیا اور فوری طور پر لاپرواہ پولیس اہلکاروں کے خلاف حکم جاری کر دیا تاہم دوسرے معاملے میں پولیس کو اب تک شعبہ اکسائز کی شکایت کا انتظار ہے۔ امبالا میں انل وج نے بتایا کہ کھرکھودا کے دو گوداموں میں پولیس اور اکسائز ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ مہم میں پکڑی گئی شراب رکھی گئی تھی۔ لیکن پولیس نو گودام میں 5000 پیٹی شراب کم ملی ہے جس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کیا جا چکا ہے اور جب ایکسائز ڈپارٹمنٹ رپورٹ دیگی تو اسے بھی درج کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب تک وزیر داخلہ انل وج نے ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کے ایس آئی ٹی کی تشکیل دے دی پھر ایکسائز شعبہ سے غائب شراب پر شعبہ خاموش کیوں ہے؟
شعبہ آبی وسائل کے ذمہ دار ریاست کے نائب وزیر اعلی دشینت چوٹالا ہیں اور غیر قانونی سمگلنگ کے معاملے میں وزیر داخلہ وج سے اب تک ان کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
ہریانہ حکومت نے آئی اے ایس رانی نگر کا استعفی بھی نامنطور کیا ہے۔ ایسے میں ایک طرف انل وج ہیں جو اپنے ہی شعبہ کی لاپرواہی پر سخت کاروائی کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں دوسری طرف شعبہ آبی وسائل سے پولیس کو ابھی تک شکایت کا موصول نہ ہونا نائب وزیر اعلی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔