احمد آباد: پورے ملک میں پھیلی ہوئی مسلم نفرت اب سڑکوں سے نکل کر ملک کی پارلیمنٹ تک پہنچ چکی ہے۔ بی ایس پی رکن پارلیمنٹ دانش علی کے خلاف بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے جس قسم کی زبان استعمال کی ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اسی معاملے پر احمد آباد کی سول سوسائٹی کے لوگوں نے کارروائی کے لیے لوک سبھا اسپیکر کو تجویز بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں احمدآباد کے سردار پٹیل میموریل ہال لال دروازہ میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ میٹنگ میں شامل سبھی لوگوں نے اس تحریر پر دستخط کی۔ اس معاملے پر میٹنگ میں شامل کچھ سماجی کارکنان سے ای ٹی وی نمائندہ روشن آرا نے خصوصی گفتگو کی۔
میٹنگ میں موجود سماجی کارکن کلیم صدیقی نے کہا کہ آج احمد آباد سول سوسائٹی کی جانب سے بلائی گئی ایک مختصر میٹنگ میں ایک قرارداد پاس کی گئی، جس میں اسپیکر لوک سبھا سے ایم پی دانش علی پر زبانی حملے کے سلسلے میں رمیش بدھوری کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہےکہ دانش علی کے خلاف لوک سبھا میں رمیش بدھوری نے جو زبان استعمال کی ہے، اس کے حوالے سے کارروائی کی جائے۔ رمیش بدھوری کا زبانی حملہ صرف دانش علی پر نہیں، ملک کے ایک ایک شہری پر ہے۔
سماجی کارکن مجاہد نفیس نے کہا کہ اب تک جو لڑائی سڑکوں محلوں میں چل رہی تھی اب وہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر ایک ایم پی کو اس قدر بیہودہ الفاظ اور گالی دیکر کر ان کی بے عزتی کی گئی۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے دکھ کے بات ہے اور اس وجہ سے تمام مسلمان کے دل کو ٹھیس پہنچی ہے اور ملک میں خوف کا ماحول بنا ہوا ہے۔ کوئی مذہب خطرے میں نہیں ہے بلکہ شہری آزادی خطرے میں ہے۔ اس لیے تمام مذاہب کے شہریوں کو اپنی آزادی کے لیے لڑنا ہوگا۔ ملک آزاد ہے اس لئے خیال رکھنا چاہیے کہ شہری غلام نہ بن جائیں۔ اس میٹنگ میں اوم برلا کے نام ایک قرارداد پڑھ کر سنائی گئی اور یہاں موجود شہریوں نے اس پر دستخط کیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دانش علی کو انصاف ملے اور اگر انصاف نہیں ملتا ہے تو یہ لڑائی ہم لڑتے رہیں گے، تاکہ ایسا معاملہ دوبارہ کبھی پیش نہ آسکے۔
میٹنگ میں شریک ایک دوسرے سماجی کارکن اور گجرات ہائی کورٹ کے وکیل شمشاد خان پٹھان نے کہا کہ اگر لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کے ذریعہ رمیش بدھوری کے خلاف وہی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں، جو پہلے دیگر اراکین کے خلاف اٹھائے گئے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ لوک سبھا میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ جمہوریت تب ہی زندہ رہتی ہے جب قانون کی حکمرانی ہو، برابری کا حق آئین کے آرٹیکل 14 میں لکھا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ریاست مذہب، نسل، ذات، جائے پیدائش، مرد اور عورت وغیرہ کے لحاظ سے امتیاز نہیں کر سکتے۔ اگر اوم برلا کوئی سخت کارروائی نہیں کرتے ہیں تو اس شق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اگر حکومت شہریوں میں تفریق کرے گی تو قانون کی حکمرانی نہیں رہے گی اور افراتفری پھیلے گی اور جمہوریت ظاہری طور پر ختم ہو جائے گی۔
- میں رات بھر سو نہیں سکا، کنور دانش علی
- وہ دن دور نہیں جب پارلیمنٹ میں مسلم شخص کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا: اویسی
وہیں اس معاملے پر سماجی کارکن مرزا حاجی اسرار بیگ نے کہا کہ اج جو گلی محلے سڑکوں میں حملے ہو رہے تھے وہ اب نازیبہ زبان کے ذریعے پارلیمنٹ میں حملے کیے جا رہے ہیں یہ کافی دکھ کی بات ہے اور سب سے بڑی بات ہے کہ اپ تک وہاں پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی رمیش بدوڑی نے اتنے گھناونے الفاظ بولے لیکن اب تک ان پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اس کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کی رکنیت منسوخ کی جائے اور دوبارہ وہ الیکشن نہ لڑ پائے ایسی کاروائی کی جائے اور انہیں سبق سکھایا جائے کہ اس طریقے کے الفاظ پارلیمنٹ میں اور کہیں بھی کسی بھی مسلمان کو یا کسی کو بھی بولا نہ جائے جس سے کہ کسی کی جذبات مجروح ہوں اور کمیونٹی پہ حملہ ہو۔