گجرات میں سورت کے راج شاہی ہال میں 27 تا 30 مارچ 2001 کو آل انڈیا مائناریٹی ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے ایک سمینار منعقد کیا گیا تھا جس میں ملک بھر سے مسلم نوجوانوں نے شرکت کی تھی۔ تاہم سورت پولیس نے 27 مارچ کی رات تمام شرکاء کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔
گجرات پولیس نے تمام 124 مسلم نوجوانوں کو سیمی (کلعدم تنظیم) کا کارکن بتایا تھا اور ان پر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور ملک کے خلاف کسی بڑی کاروائی کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تمام 124 ملزمین تقریباً ایک سال قید میں رہے۔ بالآخر انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن گذشتہ 20 سال سے مقدمہ چل رہا تھا اور ہر ماہ تمام ملزمین عدالت میں پیش ہورہے تھے۔
باعزت بری ہونے کے بعد ضیاالدین صدیقی نے ’اللہ کا شکر ادا کیا اور سسٹم پر سوال اٹھایا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’20 سال بعد ہمیں مقدمہ سے بری کردیا گیا لیکن اس عرصہ کے دوران جو تکالیف ہم نے اور ہمارے خاندان نے جھیلی ہیں اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ قانونی جنگ کے دوران ہماری زندگی کے 20 سال پوری طرح برباد ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔
سورت کے ایڈوکیٹ ایم ایم شیخ نے بتایا کہ ’چیف جوڈیشنل مجسٹریٹ اے این دیو نے پولیس کی جانب سے کوئی واضح ثبوت فراہم نہ کرنے کے بعد تمام 124 ملزمین کو بری کردیا جبکہ 5 ملزمین کی مقدمہ کے دوران موت ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ جج نے یہ مانا کہ تمام ملزمین کا سیمی نام کی کلعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں بتایا کہ 'استغاثہ مستند، قابل اعتماد اور اطمینان بخش ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا اور یہ بات ثابت نہ کرسکا کہ ملزمین کا تعلق سیمی سے تھا اور ممنوعہ تنظیم کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کےلیے یہ لوگ جمع ہوئے تھے۔ عدالت نے مزید بتایا کہ ملزمین کو یو اے پی اے کے تحت قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا'۔
گجرات پولیس نے بعض ممتاز مسلم علماء کو بھی سیمی کا کارکن بتاتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ 20 سال پرانے مقدمہ میں 124 افراد کے بے قصور ثابت ہونے کے بعد ایک بار پھر سسٹم پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔