احمدآباد: مرکزی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے 30 مارچ سے گاندھی جی کی ڈانڈی مارچ کے طرز پر مٹی ستیہ گرہ کا آغاز کیا ہے۔
گاندھی جی نے گجرات کے ڈانڈی سے ایک مٹھی نمک لے کر تحریک عدم تعاون کا 1920 مییں آغاز کیا تھا، کسانوں نے بھی ڈانڈی سے ایک مٹھی مٹی لے کر ستیہ گرہ کا آغاز کیا ہے جو آج احمدآباد پہنچا اور گاندھی آشرم سے ایک مٹھی مٹی اپنے ساتھ لے گیا۔
اس موقع پر مٹی ستیہ گرہ گجرات کی کنوینر شبنم ہاشمی نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'مٹی ستیہ گرہ کا رشتہ ملک سے ہے، آج پورا ملک کسانوں کی لڑائی لڑریا ہے، حکومت اور کارپوریٹس کسانوں کی زمیں پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مٹی ستیہ گرہ کے پیش نظر ملک کے ہر چہار کونے سے مٹی آرہے ہیں اور سب کا ایک ہی نعرہ ہے 'اس ملک کی مٹی بچاو دیش بچاو۔
شبنم ہاشمی نے مزید کہا کہ 'ملک کے دیگر ریاستوں میں لوگ مٹی ستیہ گرہ کررہے ہیں'۔ یہ صرف ایک تحریک نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے ملک کی مٹی کی لڑائی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ '30 مارچ سے ہم نے مٹی ستیہ گرہ کی شروعات گجرات کے ڈانڈی سے کی ہے۔' اور آج ہم احمدآباد کے سابرمتی آشرم اور پھر ہمت نگر جائیں گے جہاں سے مٹی لے کر راجستھان، ہریانہ، پنجاب، شاہجہان پور بوڈر ہوتے ہوئے چار اپریل کو دہلی پہنچیں گے. جہاں کسان تحریک میں شہید ہونے والے کسانوں کے لئے "شہید کسان اسمارک کی بنیاد ڈالیں گے.'
شبنم ہاشمی نے کہا کہ '4 سے 6 اپریل تک راکیش ٹیکیٹ گجرات آئیں گے کیونکہ گجرات کی کسانوں کی آواز کو انتظامیہ دبا رہی ہے،' انہوں بتایا کہ 12 مارچ کو ڈانڈی تحریک کے دن احمدآباد سے کسانوں کی حمایت میں ایک ٹریکٹر ریلی نکالی جانی تھی لیکن انتظامیہ نے اس ریلی پر پابندی عائد کردی اور اس ریلی میں شریک ہونے والے لوگوں کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔
شبنم ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ 'گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کے 100 سال پورے ہونے پر یہ مٹی ستیہ گرہ کی شروعات ہوئی ہے، جس طرح سے گاندھی جی نے ایک مٹھی نمک اٹھا کر برطانوی حکومت کو چیلنج کیا تھا، ہم بھی اسی طرز پر ایک مٹھی مٹی اٹھا کر فاسی وادی طاقتوں کے خلاف لڑائی لڑیں گے، تب تک جب تک حکومت تینوں زرعی قوانین کو واپس نہیں لیتی۔