شمش الرحمن فاروقی کی بیش قیمتی یادوں پر تذکرہ کرتے ہوئے ان کے دوست اور حضرت پیر محمد شاہ لائیبریری اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر محی الدین بامبے والا نے ای ٹی وی بھارت کی نمائندہ روشن آراء سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ فاروقی صاحب عظیم شخصیت کے حامل تھے۔ تنقید، تاریخ، مذہبیاب، شعروشاعری، فکشن یعنی ہر رمز کے شناس تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوتی تھی۔ وہ چلتے پھرتے انسائکلوپیڈیا تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شمش الرحمن فاروقی کا گجرات اور احمدآباد سے گہرا رشتہ رہا ہے، کیونکہ وہ پروفیسر وارث علوی کے قریبی دوست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کئی مرتبہ احمدآباد آئے۔ سب سے پہلی مرتبہ وہ سنہ 1982 میں ایک تین روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے احمد آباد تشریف لائے تھے اور اسی دوران مشاعرے میں بھی وہ شامل ہوئے تھے۔
پروفیسر محی الدین بامبے والا نے کہا کہ ایک اور مرتبہ جب شمس الرحمن فاروقی احمدآباد آئے تب میں نے انہیں حضرت پیر محمد شاہ لائبریری میں معدعو کیا تھا۔ وہ میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے اس وقت اس لائبریری کی بھی تعریف کی تھی۔ ان کی تمام کتابیں اس لائبریری میں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی کئی کتابیں مجھے دی تھیں۔ اسے پڑھ کر ہمیشہ ان کی یاد آ جاتی ہے۔
محی الدین بامبے والا کے مطابق شمس الرحمن فاروقی تیسری مرتبہ احمد آباد تب آئے جب گجرات کے شاعر و ادیب عادل منصوری کو گجرات حکومت کی جانب سے گورو پرسکار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیری زبان کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے والا نوجوان شاعر
پروفیسر محی الدین بامبے والا نے شمش الرحمن فاروقی کی پہلی کتاب لفط معنی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر اردو پڑھنے لکھنے والے شخص کو لفظ و معنی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ کہ بنیادی طور پر ادب کی بیش قمیتی باتوں کو اس میں درج کیا گیا ہے۔
پروفیسر محی الدین بامبے والا نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ گجرات کا ساہتیہ اکادمی کو بھی ان کی خدمات اور ان کی شخصیت پر ایک خصوصی شمارہ شائع کرنا چاہیے اور انہیں ان کی شخصیت کے مطابق خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔