عائشہ کی خود کشی کے معاملے میں پولس کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے۔ 25 فروری کو سابرمتی ندی میں کود کر خود کشی کرنے والی 23 سالہ عائشہ کے شوہر عارف خان کو پولس نے راجستھان سے گرفتار کرلیا اور احمدآباد میٹرو پولیٹن کورٹ نے عارف کو 3 روز پولیس کی تحویل میں رکھنے کا حکم سنایا تھا۔
اس کے بعد پولس کی تحقیقات کے دوران عائشہ کے شوہر عارف کا موبائل فون پولیس کو برامد ہوا ہے جس میں 72 منٹ کی کال ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ عائشہ نے مرنے سے پہلے عارف سے بات کی تھی جس میں عارف نے عائشہ سے کہا کہا تھا کہ"مرنا ہے تو مرجا اور مجھے ویڈیو بھیج دینا"۔
دراصل عائشہ کو خود کشی کرنے پر مجبور کرنے والا اس کا شوہر عارف عائشہ کے مرنے کے بعد سے فرار تھا لیکن یکم مارچ کی رات احمدآباد پولیس نے راجستھان کے پالی سے عارف کو گرفتار کر لیااور 3 مارچ کو عارف کو احمدآباد کی میٹرو پولیٹن کورٹ میں پیش کیا گیا تھا کورٹ کے حکم کے مطابق عارف فی الحال تین روزہ پولس ریمانڈ میں ہے ایسے میں جب پولس نے عارف جب اس کے موبائل فون کے بارے میں پوچھا تو اس نے صحیح جواب نہیں دیا اور فون کھو گیا ہے ایسا کہنے لگا لیکن جب پولس نے عارف سے سختی سے موبائل-فون کے بارے میں پوچھ تاجھ کی تو پولس کو فون کی جانکاری ملی۔
عارف نے پولیس کو بتایا کہ اس کا موبائل فون کسی رشتہ دار کے پاس ہےاس کے بعد پولس نے اس موبائل-فون کو تلاش کرکے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس فون میں عائشہ کے والدین نے جو الزامات عارف کے گھر والوں پر لگائے تھے اس کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہوئی ہے۔ جس سےعارف نے جو مظالم عائشہ پر کیے تھے اس کا بھی اب پردہ فاش ہونے والا ہے۔
عائشہ کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ عارف کا ایک اور لڑکی کے ساتھ افیر تھا. پولس اس فون کا سارا دیٹا نکال رہی یے تاکہ یہ پتا چلے کہ عارف پر لگائے گیے الزم سچ ہیں تو وہ لڑکی کون ہے؟ اور کیا اسی وجہ سے عارف عائشہ پر ظلم ڈھاتا تھا اور جہیز کے لیے رقم لانے پر مجبور کرتا تھا؟تاہم پوچھ تاچھ کے دوران عارف نے قبول بھی کیا ہے کہ اس نے عائشہ کو چانٹے بھی مارے تھے اور چار پانچ مرتبہ مارنے کے دوران عائشہ کی آنکھوں سے خون بھی بہنے لگا تھا اور مزید یہ کہ عائشہ کو وہ لوگ بھوکا بھی رکھتے تھے۔