ETV Bharat / state

Exclusive with Noorjahan Diwan گجرات فساد متاثرین کی آواز بننے والی نورجہاں دیوان سے خصوصی گفتگو - Diwan who raised her voice for riot victims

احمدآباد کی نور جہاں دیوان نے سنہ 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ٹیچر کی ملازمت ترک کرکے فساد متاثرین کی حق کی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ذکیہ جعفری، تیستا سیتلواڑ اور دیگر سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر کام کیا اور بے گھر لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات دلائے، ڈراپ آوٹ بچوں کا اسکول میں داخلہ کرایا، لوگوں کو اس حادثے سے باہر لانے میں مدد کی۔ Noorjahan Diwan who fought for 2002 Gujarat riot victims

Noorjahan Diwan who fought for 2002 Gujarat riot victims
فساد متاثرین کیلئے آواز بلند کرنے والی نورجہاں دیوان سے خصوصی بات چیت
author img

By

Published : Mar 9, 2023, 2:06 PM IST

ویڈیو

احمد آباد: گجرات فساد متاثرین کے لیے آواز بلند کرنے والی مثالی شخصیت نور جہاں دیوان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ' سنہ 2002 کے گجرات فساد سے قبل وہ شاہین اسکول میں ملازمت کرتی تھی اور اس وقت حجاب میں رہتی تھی، لیکن 2002 کے فسادات کے بعد انہوں نے حجاب ترک کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ 2002 کے فساد کے بعد جب انہوں نے مسلم خواتین کے حالات کو دیکھا اور غور کیا تو متاثرین کے حقوق کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں انہوں نے ذکیہ جعفری، تیستا سیتلواڑ اور دیگر سماجی کارکنان خواتین کے ساتھ جڑ کر خواتین کے لیے آواز بلند کرنے لگی۔ بے گھر لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات دلائے، ڈراپ آوٹ بچوں کا اسکول میں داخلہ کرایا، لوگوں کو اس حادثے سے باہر لانے میں مدد کی اور اس کے بعد وہ بہت سی تنظیموں سے جڑ گئیں۔ خاص طور پر ایکشن اینڈ، مسلم مہیلا آندولن، سے جڑی رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ان کی ایک چھ سال کی بچی تھی جسے گھر چھوڑ کر باہر آنا جانا بہت مشکل تھا۔ اس طرح بچی کو چھوڑ کر آنا جانا ان کے شوہر کو بھی ناپسند تھا اور وہ بھی ان سے ناراض رہتے تھے۔'

دوسری جانب سماج کو بھی ان کام پسند نہیں آرہا تھا، لوگ طنز کرتے تھے، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور خواتین کے حقوق کے لیے لڑتی رہیں۔ اس کے بعد جب انہیں لوگ جاننے لگے اور ان کے کام کی تعریف ہونے لگی تو سماج اور ان کے شوہرنے بھی انہیں قبول کیا'۔
نورجہاں دیوان کہتی ہیں کہ جب وہ فساد متاثرین کے لیے کام کرنے لگی تو سرکاری کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی اور انہیں سنہ 2012 میں کرائم برانچ نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ انہیں دہشت گرد بتاکر پیش کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے انہیں اس الزام سے بری کرنے میں مدد کی اور یہ سبھی الزامات چھوٹے ثابت ہوئے۔ الزامات سے بری ہونے کے بعد بھی کئی بار انہیں جیل جانا پڑا، کیونکہ جب بھی وہ کسی معاملے پر احتجاجی مظاہرہ کرتی تو پولیس سب سے پہلے انہیں حراست میں لیتی ہے۔ اور آج بھی پولیس کی نظروں پر ہے۔'

انہوں نے کہا کہ وہ گذشتہ 20 برسوں سے ایک کاونسلنگ سینٹر بھی چلا رہی ہیں جہاں میاں بیوی کے جھگڑوں کا صلاح کیا جاتا ہے اور متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے میں مدد کی جاتی ہے۔ ان کے روزگار کے لیے بھی وہ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سی اےاے این آر سی کا احتجاج احمدآباد کے جوہاپورا چلایا۔ فساد کے بند کیسز کو ری اوپن کرایا، جوہاپورا میں بنیادی سہولیات کے لیے کورٹ تک دروازہ بھی کھٹکھٹایا جیسے فلاح و بہبود کے لیے بہت سارے کام کیے، جس کی وجہ سے اب تک انہی 35 ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔'

مزید پڑھیں:

ویڈیو

احمد آباد: گجرات فساد متاثرین کے لیے آواز بلند کرنے والی مثالی شخصیت نور جہاں دیوان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ' سنہ 2002 کے گجرات فساد سے قبل وہ شاہین اسکول میں ملازمت کرتی تھی اور اس وقت حجاب میں رہتی تھی، لیکن 2002 کے فسادات کے بعد انہوں نے حجاب ترک کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ 2002 کے فساد کے بعد جب انہوں نے مسلم خواتین کے حالات کو دیکھا اور غور کیا تو متاثرین کے حقوق کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں انہوں نے ذکیہ جعفری، تیستا سیتلواڑ اور دیگر سماجی کارکنان خواتین کے ساتھ جڑ کر خواتین کے لیے آواز بلند کرنے لگی۔ بے گھر لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات دلائے، ڈراپ آوٹ بچوں کا اسکول میں داخلہ کرایا، لوگوں کو اس حادثے سے باہر لانے میں مدد کی اور اس کے بعد وہ بہت سی تنظیموں سے جڑ گئیں۔ خاص طور پر ایکشن اینڈ، مسلم مہیلا آندولن، سے جڑی رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ان کی ایک چھ سال کی بچی تھی جسے گھر چھوڑ کر باہر آنا جانا بہت مشکل تھا۔ اس طرح بچی کو چھوڑ کر آنا جانا ان کے شوہر کو بھی ناپسند تھا اور وہ بھی ان سے ناراض رہتے تھے۔'

دوسری جانب سماج کو بھی ان کام پسند نہیں آرہا تھا، لوگ طنز کرتے تھے، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور خواتین کے حقوق کے لیے لڑتی رہیں۔ اس کے بعد جب انہیں لوگ جاننے لگے اور ان کے کام کی تعریف ہونے لگی تو سماج اور ان کے شوہرنے بھی انہیں قبول کیا'۔
نورجہاں دیوان کہتی ہیں کہ جب وہ فساد متاثرین کے لیے کام کرنے لگی تو سرکاری کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی اور انہیں سنہ 2012 میں کرائم برانچ نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ انہیں دہشت گرد بتاکر پیش کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے انہیں اس الزام سے بری کرنے میں مدد کی اور یہ سبھی الزامات چھوٹے ثابت ہوئے۔ الزامات سے بری ہونے کے بعد بھی کئی بار انہیں جیل جانا پڑا، کیونکہ جب بھی وہ کسی معاملے پر احتجاجی مظاہرہ کرتی تو پولیس سب سے پہلے انہیں حراست میں لیتی ہے۔ اور آج بھی پولیس کی نظروں پر ہے۔'

انہوں نے کہا کہ وہ گذشتہ 20 برسوں سے ایک کاونسلنگ سینٹر بھی چلا رہی ہیں جہاں میاں بیوی کے جھگڑوں کا صلاح کیا جاتا ہے اور متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے میں مدد کی جاتی ہے۔ ان کے روزگار کے لیے بھی وہ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سی اےاے این آر سی کا احتجاج احمدآباد کے جوہاپورا چلایا۔ فساد کے بند کیسز کو ری اوپن کرایا، جوہاپورا میں بنیادی سہولیات کے لیے کورٹ تک دروازہ بھی کھٹکھٹایا جیسے فلاح و بہبود کے لیے بہت سارے کام کیے، جس کی وجہ سے اب تک انہی 35 ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔'

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.