احمد آباد: سنہ 2002 میں گجرات میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں احمدآباد کا چمن پورا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ تھا جہاں گلبرگ سوسائٹی میں کانگریس کے اُس وقت کے رکن پارلیمان احسان جعفری سمیت 69 افراد کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی گلبرگ سوسائٹی کے بنگلہ نمبر 18 میں رہنے والے امتیاز خان پٹھان نے بھی اپنے خاندان کے دس افراد کو کھودیا تھا۔ امتیاز پٹھان گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے عینی شاہد ہیں۔ امتیاز پٹھان اُس وقت 18 برس کے تھے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کس طرح سے شرپسندوں نے گلبرگ سوسائٹی کو نذر آتش کرکے قتل عام انجام دیا تھا۔ Gulbarg Society Massacre
امتیاز خان پٹھان نے کہا کہ 'وہ احسان جعفری کے بنگلے کے بازو والے 18 نمبر بنگلے میں میں رہتے تھے۔ ان کا بچپن وہیں گزرا تاہم آج وہ وہاں نہیں رہتے۔ سُپریم کورٹ کی جانب سے مودی کو کلین چٹ برقرار رکھنے کے بعد امتیاز پٹھان گلبرگ سوسائٹی گئے تھے۔ اسی دوران انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے روبرو فرقہ وارانہ فسادات کی منظر کشی کی۔ انہوں نے کہا کہ گلبرگ سوسائٹی کو دیکھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے۔ آج بھی اس کے در و دیوار پر آگ اور دھویں کی شدت کے نشان موجود ہیں جو بربریت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ امتیاز پٹھان نے بتایا کہ گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں ان کے خاندان کے 10 افراد کی موت ہوئی تھی۔
امتیاز پٹھان نے بتایا کہ 'ان کا بنگلہ تین منزلہ تھا جس میں ان کے میرے بڑے ابا نیچے والے روم میں رہتے تھے اور اوپری منزل پر وہ (امتیاز پٹھان) اپنے والدین اور بھائی بہن کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کے گھر کے بازو میں ہی احسان جعفری کا مکان تھا۔ امتیاز نے بتایا کہ ان کے دادا، احسان جعفری کے والد اور بزرگوں نے مل کر یہ سوسائٹی خریدی تھی اور اس سوسائٹی کا نام گلبرگ رکھا تھا یعنی پھولوں کا باغیچہ، لیکن 2002 فسادات کے بعد سے یہ پھولوں کا باغیچہ (گلبرگ سوسائٹی) اب ویران حالت میں پڑا ہوا ہے۔ Godhra Train Burning Tragedy
سنہ 2002 میں شرپسندوں نے اس سوسائٹی کو جلا دیا تھا، امتیاز 19 سال سے انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک انصاف سے محروم ہیں۔ 2002 میں امتیاز کے خاندان کے 10 افراد اور احسان جعفری کے بنگلے میں 69 لوگوں کا قتل کیا گیا تھا، جس میں سے محض 38 لاشیں ہی سول ہاسپیٹل سے ملی تھیں جبکہ باقی لاشوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ امتیاز پٹھان نے مزید کہا کہ 'ایس آئی ٹی نے اگر صحیح طور پر سے تحقیقات کی ہوتی اور اگر وہ سچائی کے ساتھ تفتیش کرتی نیز اسے سپریم کورٹ اس کی مدد کرتی تو شاید ذکیہ جعفری کی درخواست کو خارج نہیں کیا جاتا اور نہ ہی نریندر مودی کو کلین چٹ ملتی۔
امتیاز پٹھان نے کہا کہ '28 فروری 2002 کو صبح 10 بجے سے شرپسندوں نے روڈ پر فساد، پتھراؤ اور آگ زنی شروع کردی تھی۔ اس وقت کے رکن پارلیمان احسان جعفری نے مدد کے لئے پولس افسران، کمشنر، کانگریس لیڈران اور اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو بھی فون کیا تھا اس کے باوجود بھی کوئی مدد نہیں ملی جس سے جعفری صاحب کافی مایوس ہو گیے تھے۔ اس کے بعد تقریباً 2 بجے گلبرگ سوسائٹی میں فسادی داخل ہوئے سوسائٹی میں آتشزنی شروع کر دی جس کے بعد 68 لوگ احسان جعفری صاحب کے گھر میں پناہ لینے پہنچے تھے لیکن شرپسند بھی وہاں پہنچ گئے اور وہاں موجود 69 لوگوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ امتیاز پٹھان نے بتایا کہ یہ سب واقعہ انہوں نے اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کیوں کہ وہ پہلے منزلے پر چھپے پوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کورٹ میں گواہی کے دوران 27 ملزمین کے نام دیئے تھے جس میں سے 3 ملزم آج بھی فرار ہیں۔ سارے ثبوت دینے کے باوجود ہمیں عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ گلبرگ سوسائٹی کے تمام مکانات کو ڈیولپ کرکے یہاں اسکولوں یا ہاسپیٹل قائم کیا جائے۔