ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی آخری فہرست میں 19 لاکھ سے زیادہ افراد کو خارج کر دیا گیا ہے اور آسام این آر سی سے خارج ہونے والوں کے لیے سب سے بڑا حراستی کیمپ بھی تعمیر کیا جارہا ہے اب اس حراستی کیمپ پر سیاست بھی گرما گئی ہے۔
جمعیت علمائے ہند (م) کے سیکرٹری مولانا حکیم الدین قاسمی گجرات کے شہر احمد آباد میں جمعیت کے ریاستی دفتر پر ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
اس موقع پر انھوں نے این آر سی اور حراستی کیمپ پر ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس طرح کے قانون لا رہی ہے این آر سی، اور شہریت ترمیم قانون دونوں ہی غلط ہے جمعیت علمائے ہند اس کی شدت سے مخالفت کر رہی ہے۔
مولانا حکیم الدین قاسمی نے مزید کہا کہ آسام میں لوگوں کی حالات بد سے بدتر ہوگئی ہے ایسے میں جمعیت علمائے ہند نے آسام این آر سی کو لے کر مقدمہ بھی لڑا ہے جو لوگ این آر سی باہر ہیں انہیں حکومت کی جانب سے اب تک کوئی نوٹس بھی نہیں ملا۔
انہوں نے حراستی کیمپ کے تعلق سے کہا کہ اگر پورے ملک میں این آر سی نافذ کردیا گیا اور ملک کے لوگوں کو حراستی کیمپ میں بھر دیا گیا تو ان کی زندگی مفلوج ہو جائے گی اور وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے۔
واضح رہے کہ چند دنوں قبل گجرات کے وزیراعلی وجئے روپانی نے سی اے اے اور این آر سی کو پورے گجرات میں نافذ کرنے کی بات کہی تھی۔
ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ این آر سی کی زد میں آنے والے لوگوں کے لیے حراستی کیمپ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے اور جمعیت علماء ہیں اس کے لیے آگے کیا قدم اٹھاتی ہے؟