احمدآباد: سابق رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا محمد ادیب سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے ملک کے موجودہ حالات پر خصوصی گفتگو کی۔ محمد ادیب نے اس موقع پر کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں اور جس طریقے سے خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے، جو درد میرے سینے میں ہے مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ کوئی تو بولے، اگر ہم نے بولنا بند کر دیا تو پھر یہ مظالم رکنے والے نہیں ہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہم ملک کے باشندے ہیں ہم کو پورا حق ہے کہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔
محمد ادیب نے کہا کہ افسوس یہ ہے کہ ہمارے لوگوں نے خوف کی وجہ سے یا ڈر کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی اگر آپ خاموش ہو جائیں گے یا ڈر جائیں گے تو کبھی آپ اس ملک کی ترقی نہیں کر سکتے، اس ملک کا یہ مزاج رہا ہے کہ یہاں ایک خاص طبقے نے اپنے ہریجن بھائیوں کے ساتھ، دلتوں کے ساتھ جس طرح کے مظالم کیے، یہی کچھ کیفیت انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کی تو ہم لوگوں کو کوشش کرنا ہے کہ ان مظالم کا سدباب کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنی قوت کو منوائیں اور جو یہاں سیکولر فورسز ہیں ان کے پیچھے کھڑے ہوں اور اس ملک کا آئین خطرے میں ہے، اگر ملک کا آئین ختم ہوگیا تو ہمارا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ این آر سی دنیا کا واحد ایسا قانون ہے جہاں یہ کہا گیا کہ خاص مذہب کے لوگ کو تو ہندوستان کی شہریت ملے گی لیکن ان کے علاوہ کسی کو شہریت نہیں ملے گی۔ یہ قانون دنیا میں کہیں نہیں ہے، دنیا میں مختلف ملکوں میں انسان دیکھا جاتا ہے، مذہب نہیں دیکھا جاتا، یہ وہ واحد ملک ہے یہ گاندھی کا ملک ہے جہاں مذہب کے نام پر شہریت دی جاتی ہے، یہ سراسر ظلم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کی عدالتوں کی کمزوری ہے، ان کو سزا دینی چاہیے کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، آئین میں کہیں اس کا پروویژن نہیں ہے کہ آپ مخصوص مذہب کے لوگوں کو شہریت دیں، یہ مکمل طور پر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ گاندھی کے تصور کو ختم کرنے کی بڑی بھاری شازش ہے اور روز بروز گاندھی کو تو ایک بار یہ گولی لگی۔ لیکن حکومتیں روز قسطوں میں گاندھی کو مار رہی ہیں اس کی روح کو تکلیف پہنچا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بیمار سوچ ہے دنیا کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنی عمارتوں کو اپنی تاریخ کو وراثت بناتا ہے میں نے اسپین میں جا کے دیکھا 700 سال مسلمانوں کے حکومت رہی وہاں کی عمارتیں ویسے کے ویسے ہی قائم ہیں وہ کہتے ہیں یہ ہماری وراثت ہے، وہاں کی مساجد آج بھی موجود ہیں، اسی طرح سے سینٹرل ایشیاء میں 70 سال روس کا قانون تھا، کلمہ پڑھنا منع تھا، وہاں کے مساجد ویسے ہی قائم ہیں، یہ بد نصیب ملک ہے جہاں تاریخی مساجد کو منہدم کیا جارہا ہے، یہ کم عقل لوگ ہیں، احساس کمتری میں مبتلا لوگ ہیں، جن کو جامع مسجد کی میناریں پریشان کرتے ہیں، جن کو لال قلعہ کی عظمت سے پریشانی ہوتی ہے جن کو اس ملک کے شہروں کے نام بدلنے ہیں، یہ احساس کمتری کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں: انڈین مسلم فار سول رائٹ تنظیم کے بینر تلے 'انسانی حقوق اور ہمارا آئین' کے عنوان سے پروگرام
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم سی آر یہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی تنظیم ہے جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے یہ ہر ایک مظلوم کے لیے ہے جس پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، ہر اس معصوم کے لیے ہے جس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، یہ پہلی کوشش ہے کہ مظلوم کی مدد کے لئے اس طرح کی تنظیم قائم کی گئی ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں اس کی ذیلی تنظیمیں بنائی جا چکی ہے اب گجرات میں بھی اس کی باڈی بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔