اورنگ آباد: موجودہ دور ڈیجیٹل دور ہے۔ اس دور میں زیادہ تر کام کمپیوٹر، مشینوں اور ڈیجیٹل پرنٹنگ پریسوں کے ذریعہ کیے جا رہے ہیں۔ جو لوگ پہلے خطاتی کر کے قرآن لکھا کرتے تھے اب ڈیجیٹل دور میں اس طرح کے کتابت کے کام نظر نہیں آرہے ہیں۔ کتابت پوری طرح سے ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
اورنگ آباد کی رہنے والی سیدہ اسی فن کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ کتابت کا سلسلہ دوبارہ کس طرح شروع ہو کیا جائے۔ سیدہ کا مقصد ہے کہ آگر قران کو ہاتھ سے لکھا جاتا ہے تو، قرآن لکھنے والوں کا ذہن بھی کھولتا ہے۔
سیدہ کا کہنا ہے کہ طغرے بناتے وقت زیر، زبر، پیش کی باریکیوں کو بھی بہت زیادہ دھیان سے لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر لوگ غلط پڑھیں گے، تو اس کا مطلب بھی غلط ہی نکلیں گا۔اس چیز کی ذمہ داری لکھنے والے پر ہی عائد ہوں گی۔اس طرح کی طغرے ہاتھ سے لکھنے سے ثوابجارن بھی حاصل ہوں گا، جو بھی لوگ اسے پڑھیں گے اور جو بھی لوگ اسے لکھیں گے اسے ثواب حاصل ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ طغرے لکھنے کے وقت بہت زیادہ صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ بہت زیادہ باریکی سے لکھنا ہوتا ہے، ذرا سی غلطی کی وجہ سے پورا ایک طغرہ خراب ہو سکتا ہے۔ اور ایک چھوٹا سا طغرہ لکھنے کے لیے کم سے کم دو دن درکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ائمہ مساجد جمعیت علماء کا تصدیق نامہ دیکھ کرہی چندے کی اجازت دیں: مولانا آصف شعبان
سیدہ کے پاس دو دہز روپے سے لے کر آٹھ ہزار روپے تک کے طغرے فی الحال موجود ہے۔فی الحال سیدہ اپنا کام انسٹاگرام سوشل میڈیا کے ذریعے آگے بڑھا رہی ہے، موڈسٹ کیلیگرافی بائے سیدہ انسٹاگرام پر ان کا پیج ہے، اور اس پر ہی اپنے طغرے فروخت کر رہی ہے۔