مفتی عبدالقیوم نے کہا کہ ایک جانب حجاب کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو دوسری جانب اسکولوں میں بھگوت گیتا پڑھانے کی بات کی جارہی ہے۔ کیا یہ مذہبی کتاب نہیں ہے؟ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ آپ کو کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لباس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ بھگوا پہن کر سنسد میں جاسکتے ہیں تو، اسکولوں میں حجاب پہن کر کیوں نہیں جا سکتے؟
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے مزید کہا کہ حجاب تہذیبی، پہچان اور انسانیت کا معاملہ ہے۔ اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔ کپڑے پہننے کا انتخاب پہننے والے کو ہونا چاہیے۔ اس معاملہ میں زبردستی کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھگوا پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر اسکولوں میں حجاب پر کس طرح پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ حجاب کو تعلیم سے جوڑا جارہا ہے اور اسکولوں میں حجاب پہننے سے روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب، تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے۔