ETV Bharat / state

Junagadh Masjid issue جونا گڑھ میں سرعام پٹائی اور پولیس کی حراست میں مارپیٹ کا معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچا

author img

By

Published : Jun 27, 2023, 10:28 AM IST

جونا گڑھ میں مبینہ طور پر غیر قانونی مسجد کو منہدم کرنے کے نوٹس کے بعد پولیس اور مسلمانوں کے درمیان تشدد اور تصادم ہوا جس کے بعد پولیس کی جانب سے مشتبہ ملزمان کی سر عام پٹائی اور حراست میں تشدد کا معاملہ گجرات ہائی کورٹ تک جا پہنچا۔

Junagadh Masjid issue
Junagadh Masjid issue

احمدآباد: جونا گڑھ میں مبینہ طور پر غیرقانونی مسجد کو منہدم کرنے کے نوٹس والے معاملے پر گجرات سول سوسائٹی کی تنظیم لوک ادھیکار سنگھ اور مائناریٹی کوآرڈینیشن کمیٹی گجرات نے ایک مفاد عامہ کے عرضی کے ساتھ گجرات ہائی کورٹ میں رجوع کیا ہے۔ اس پی آئی ایل میں جوناگڑھ پولیس کے مبینہ حراست تشدد اور سرعام پٹائی کے کئی معاملات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ گجرات ہائی کورٹ میں اس معاملے کی مختصر سماعت کے بعد چیف جسٹس اے جے دیسائی اور جسٹس برین ویشنو کی ڈیویزن بینچ نے پیر کو عرضیاں گزاروں کو سرکاری وکیل کو ایک کاپی فراہم کرنے کی ہدایت دی اور مزید غور کے لیے معاملے کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی ہے۔

اس درخواست میں بتایا گیا ہے کہ 16 جون کی رات جوناگڑھ پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے آٹھ سے دس مسلمانوں کو مسجد کے سامنے مجاوڑی گیٹ پر کھڑا کیا گیا اور انہیں عوام کے سامنے بے دردی سے کوڑے مارے گئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بربریت پولیس کے مظالم جو ہندوستان کے اقلیتی برادریوں کے شہریوں کو قانون کے مناسب عمل کے بغیر اور بغیر کسی مجاز عدالت کے انہیں سزا سناتے ہیں یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس درخواست میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ اس معاملے میں کم از کم 6 گرفتار نابالغوں کو جب مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا انہوں نے حراست میں تشدد اور تشدد کی تحریری شکایت درج کرائی لیکن پولیس کی مبینہ طور پر ان سے رابطہ کرنے کے بعد ان کے والدین نے درخواست واپس لے لی۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایف ائی ار کے سلسلے میں گرفتار چھ دیگر افراد نے بھی مجسٹریٹ عدالت کے سامنے تحریری طور پر شکایت کی کہ انہیں حراست میں مار پیٹ مظالم ڈھائے گئے اور یہاں تک کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود انہیں طبی علاج فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے شکایت کو نوٹس میں لیا اور ایکٹ کے تحت کاروائی شروع کی انہیں طبی معائنے کے لیے لے جایا گیا لیکن جوناگڑھ پولس نے ہر ایک ملزم کے زخمی ہوئے تفصیل والے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے روک دیا۔

اس معاملے پر درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ متاثرین کو مجسٹریٹ کی عدالت میں بہت دیر سے پیش کیا گیا پہلے سرعام پٹائی کے بعد بغیر کسی علاج کے مشتبہ افراد کے طور پر حراست میں لیا گیا اور ان کی گرفتاری کے بعد جوناگڑھ پولیس نے ان کے گھروں کا دورہ کیا اور ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی ۔ ایسے میں عرضی کو ضرر نہیں گزرا تھا ہائی کورٹ میں پرنسپل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج جوناگڑھ یا اس معاملے میں کسی سینیئر عدالتی افسر کو حراست میں تشدد توڑ پھوڑ اور مشتبہ افراد اور ملزمان کے املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت مانگی ہے۔ تاہم اس درخواست میں گجرات ہائی کورٹ سے ایس پی یا اس سے اوپر کے رینک کے آئی پی ایس افسر ان کی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ سر عام پٹائی ہراستی تشدد کے واقعات کی تحقیقات کی جا سکے۔ ساتھ ہی اس ٹیم کو ہدایت دی جائے جو جوناگڑھ رینج یا ضلع سے تعلق رکھتا ہوں اور مقررہ مدت کے اندر رپورٹ جمع کروا سکیں۔

اس کے علاوہ عرضی گزار نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عدالت اس واقعے کو توہین عدالت کے طور پر نوٹس لے اور ڈی کے باسو کے فیصلے کے تحت ہدایات کے خلاف ورزی کرنے والے پولیس افسران کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ واضح رہے کہ 16 جون کی راے جوناگڑھ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے بعد مقامی لوگوں اور پولیس کے درمیان تشدد اور جھڑپیں شروع ہوئیں جس میں انہیں عوام سڑکوں پر مبینہ طور پر تجاوزات کرنے کے الزام میں پانچ اسلامی ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس دوران کم از کم چار پولیس اہلکار زخمی اور ایک شہری کی موت ہو گئی اسی طرح ریاستی ٹرانسپورٹ کی ایک بس اور ایک پولیس چوکی میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا اس معاملے میں تقریبا 180 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا اور اس کے بعد کم از کم 35 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

احمدآباد: جونا گڑھ میں مبینہ طور پر غیرقانونی مسجد کو منہدم کرنے کے نوٹس والے معاملے پر گجرات سول سوسائٹی کی تنظیم لوک ادھیکار سنگھ اور مائناریٹی کوآرڈینیشن کمیٹی گجرات نے ایک مفاد عامہ کے عرضی کے ساتھ گجرات ہائی کورٹ میں رجوع کیا ہے۔ اس پی آئی ایل میں جوناگڑھ پولیس کے مبینہ حراست تشدد اور سرعام پٹائی کے کئی معاملات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ گجرات ہائی کورٹ میں اس معاملے کی مختصر سماعت کے بعد چیف جسٹس اے جے دیسائی اور جسٹس برین ویشنو کی ڈیویزن بینچ نے پیر کو عرضیاں گزاروں کو سرکاری وکیل کو ایک کاپی فراہم کرنے کی ہدایت دی اور مزید غور کے لیے معاملے کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی ہے۔

اس درخواست میں بتایا گیا ہے کہ 16 جون کی رات جوناگڑھ پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے آٹھ سے دس مسلمانوں کو مسجد کے سامنے مجاوڑی گیٹ پر کھڑا کیا گیا اور انہیں عوام کے سامنے بے دردی سے کوڑے مارے گئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بربریت پولیس کے مظالم جو ہندوستان کے اقلیتی برادریوں کے شہریوں کو قانون کے مناسب عمل کے بغیر اور بغیر کسی مجاز عدالت کے انہیں سزا سناتے ہیں یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس درخواست میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ اس معاملے میں کم از کم 6 گرفتار نابالغوں کو جب مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا انہوں نے حراست میں تشدد اور تشدد کی تحریری شکایت درج کرائی لیکن پولیس کی مبینہ طور پر ان سے رابطہ کرنے کے بعد ان کے والدین نے درخواست واپس لے لی۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایف ائی ار کے سلسلے میں گرفتار چھ دیگر افراد نے بھی مجسٹریٹ عدالت کے سامنے تحریری طور پر شکایت کی کہ انہیں حراست میں مار پیٹ مظالم ڈھائے گئے اور یہاں تک کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود انہیں طبی علاج فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے شکایت کو نوٹس میں لیا اور ایکٹ کے تحت کاروائی شروع کی انہیں طبی معائنے کے لیے لے جایا گیا لیکن جوناگڑھ پولس نے ہر ایک ملزم کے زخمی ہوئے تفصیل والے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے روک دیا۔

اس معاملے پر درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ متاثرین کو مجسٹریٹ کی عدالت میں بہت دیر سے پیش کیا گیا پہلے سرعام پٹائی کے بعد بغیر کسی علاج کے مشتبہ افراد کے طور پر حراست میں لیا گیا اور ان کی گرفتاری کے بعد جوناگڑھ پولیس نے ان کے گھروں کا دورہ کیا اور ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی ۔ ایسے میں عرضی کو ضرر نہیں گزرا تھا ہائی کورٹ میں پرنسپل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج جوناگڑھ یا اس معاملے میں کسی سینیئر عدالتی افسر کو حراست میں تشدد توڑ پھوڑ اور مشتبہ افراد اور ملزمان کے املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت مانگی ہے۔ تاہم اس درخواست میں گجرات ہائی کورٹ سے ایس پی یا اس سے اوپر کے رینک کے آئی پی ایس افسر ان کی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ سر عام پٹائی ہراستی تشدد کے واقعات کی تحقیقات کی جا سکے۔ ساتھ ہی اس ٹیم کو ہدایت دی جائے جو جوناگڑھ رینج یا ضلع سے تعلق رکھتا ہوں اور مقررہ مدت کے اندر رپورٹ جمع کروا سکیں۔

اس کے علاوہ عرضی گزار نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عدالت اس واقعے کو توہین عدالت کے طور پر نوٹس لے اور ڈی کے باسو کے فیصلے کے تحت ہدایات کے خلاف ورزی کرنے والے پولیس افسران کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ واضح رہے کہ 16 جون کی راے جوناگڑھ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے بعد مقامی لوگوں اور پولیس کے درمیان تشدد اور جھڑپیں شروع ہوئیں جس میں انہیں عوام سڑکوں پر مبینہ طور پر تجاوزات کرنے کے الزام میں پانچ اسلامی ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس دوران کم از کم چار پولیس اہلکار زخمی اور ایک شہری کی موت ہو گئی اسی طرح ریاستی ٹرانسپورٹ کی ایک بس اور ایک پولیس چوکی میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا اس معاملے میں تقریبا 180 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا اور اس کے بعد کم از کم 35 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.