دراصل سال 2004 میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عشرت جہاں اور ذیشان سمیت تین افراد کو احمد آباد کے کوترپور کے قریب ہلاک کیا گیا تھا۔ اس معاملے پر پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے چار افراد دہشت گرد تھے اور وہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ بریندر مودی کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
اس تعلق سے سماجی کارکن نورجہاں دیوان نے کہا کہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کے بارے میں سب کو پتا ہے کہ وہ فرضی انکاؤنٹر تھا۔ اس کے باوجود تینوں ملزمین کو سی بی آئی کورٹ نے بری کر دیا۔ یہ سراسر نا انصافی ہے، اب کسی کو بھی کورٹ میں انصاف نہیں مل رہا ہے اور عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس میں بھی یہی ہوا۔ فرضی انکاؤنٹر ہونے کے باوجود بھی انصاف نہیں ملا، یہ بہت غلط فیصلہ ہے۔
اس فیصلے پر سماجی کارکن مجاہد نفیس نے کہا کہ گجرات حکومت نے مسلمانوں کو ڈرانے اور اکثریتی آبادی کو ڈرانے کے لیے انکاؤنٹر کو ایک ہتھیار کے کے طور پر استعمال کیا، عشرت جہاں کیس میں بھی یہی ہوا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پروشیکیوشن نے کورٹ میں دستیاب ثبوت کیوں نہیں رکھا۔ ان کے اوپر کارروائی ہونی چاہیے، مانو ادھیکار آیوگ کو ان معاملوں میں دخل دے کر کارروائی کرنا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عشرت جہاں کے اہلخانہ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بی جے پی امیدوار کی کار سے ای وی ایم برآمد، الیکشن کمیشن کے 4 افسران معطل
اس معاملے پر سماجی کارکن دیو دیسائی کا کہنا یے کہ جس طرح سے سنہ 2004 سے سنہ 2006 تک فرضی انکاؤنٹر کے معاملے سامنے آئے اور پولیس کا استعمال کر کے فرضی انکاؤنٹر کیے گئے، ان میں سے ایک عشرت جہاں فرضی انکاونٹر بھی شامل ہے۔ کافی تحقیقات کے بعد پہلے اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا گیا اور اب سی بی آئی نے اس کیس کے تمام ملازمین کو باعزت بری کردیا، جو ملزم ہیں، جنہوں نے اصل میں بے قصور بچی کو مارا ہے، ان کو سی بی آئی کورٹ بے گناہ ثابت کردیا۔ ایسے میں اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے اور جو لوگ کیس لڑ رہے ہیں، انہیں اس معاملے پر اپیل کرنا چاہیے کیونکہ جو گناہ گار ہیں، انہیں ہندوستان آئین کے مطابق سزا ملنی ہی چاہئے۔