مارچ میں ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد اسکول دوبارہ کھلنے سے اسکولوں میں درس و تدریس کا عمل شروع تو ہو چکا ہے۔ تاہم بیشتر سرکاری اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں کو دیکھ کر بچوں اور والدین میں خوف و ہراس کا ماحول بھی ہے۔
پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں متعدد اسکولی عمارتیں ناقابل استعمال حد تک خراب ہو چکی ہیں، طلباء اسکولوں میں ٹھیک سے بیٹھ بھی سکتے ہیں۔
مقامی باشندوں نے بتایا کہ ’’کئی اسکول ایسے ہیں جن میں بچوں کو بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ وہیں اسکول پہاڑی علاقوں میں ہونے کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔‘‘
والدین نے شکایت کی کہ اسکولوں میں پانی کی شدید قلت ہے اور اسکولوں میں بیت الخلاء کا بہتر بندوبست نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طلباء اور اساتذہ کو رفع حاجت کے لیے کھلے میں جانا پڑتا ہے۔
مقامی لوگوں نے محکمہ تعلیم اور ضلع انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’سرکاری وعدے ابھی تک فائلوں تک ہی محدود ہیں۔ زمینی سطح پر اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔‘‘