ETV Bharat / state

ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور خوش کن زندگی - چین کے شہر شنزہن

کسی بھی شہری ٹرانسپورٹ نظام کا تصور کیجئے، سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ہوا میں دھوا  اڑاتی اور شور مچاتی بھاری گاڑیاں نظروں میں آجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان شہروں میں بھی جہاں اب میٹرو ریل کا نظام مستحکم ہوچکا ہے، عام ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ موجود ہے۔

ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور خوش کن زندگی
ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور خوش کن زندگی
author img

By

Published : Jan 11, 2020, 11:09 PM IST

تاہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے چین کے شہر شنزہن کا منظر نامہ اس سب کے برعکس ہے۔ وہاں کا ٹرانسپورٹ نظام پوری دنیا کو ایک جدید راستہ دکھاتا ہے ۔بس اور ٹیکسی زیادہ تر لوگوں کے لئے سفرکا بنیادی ذرئعہ ہے اور یہ دنیا باالخصوص میٹرو شہروں کے لئے، جو ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنا چاہتے ہیں، قوتِ حرکت ہے۔

الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی
الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی

حکومت کی پہل
محض چالیس سال قبل تک شنزہنہانگ کانگ کے نزدیک مچھلیاں پکڑنے کے لئے جانا جاتا رہا تاہم اب یہ ایک عظیم شہر میں بدل چکا ہے جہاں کی آبادی تقریباَ دو کروڑ ہے۔ چینی حکومت نے اس شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہترین بنانے اور آلودگی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مناسب منصوبہ بندی کرکے دس سال کے اندر اندر اس ہدف کو حاصل کرلیا۔ شنزہن میں 17 ہزار بسیں اور 20 ہزار ٹیکسیاں ہیں۔ اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چھوڑ کر یہاں روزانہ 20 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ دس سال قبل شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی۔چینی حکومت نے مختلف متبادلوں کی کھوج کی اور 2011 میں شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں پیلی الیکٹرک بس متعارف کی۔ چناچہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے اقدامات کئے اور دوسری جانب لوگوں نے بھی ان اقدامات کا خیر مقدم کیا۔ یہاں تک کہ اپنی گاڑیاں رکھنے والوں نے بھی عام ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کیا۔ اس عمل سے شنزہن دیکھتے ہی دیکھتے ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور ایک مزے دار رہائشی ماحول والا شہر بن گیا۔ ایک دہائی میں شہر کا ماحول اتنا تبدیل ہو گیا کہ آج بھی پوری دنیا انتہائی دلچسپی کے ساتھ یہاں کی طرف دیکھ رہی ہے۔

شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی (فائل فوٹو)
شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی (فائل فوٹو)

الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی

ٹرانسپورٹ نظام میں بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کی آمد سے شنزہن میں لوگوں نے ایک اور نمایاں تبدیلی یہ محسوس کی کہ انہیں بسوں کے پریشان کر دینے والے شورشرابا سے نجات ملی۔ اس شہر میں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے نپٹا گیا ہے وہیں گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی پوری طرح قابو میں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے شنزہن کے شہری ایک عجیب بلکہ مزاحیہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلنے والی گاڑیاں خطرناک ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ گاڑیوں سے کم از کم اتنی آواز آئے کہ جس سے ان کی آمد معلوم پڑتی ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی صورتحال کس حد تک بدل چکی ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومت لوگوں کے اس مطالبے کی منظوری پر مستعدی کے ساتھ سوچ و بچار کر رہی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو قابو کیا گیا ہے بلکہ ایندھن پر ہونے والے اخراجات کو نصف کیا گیا ہے۔ بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال سے سالانہ 1.60 لاکھ ٹن کوئلہ کی کھپت کم ہوچکی ہے اور یوں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے ساڑھے چالیس لاکھ ٹن کی ملاوٹ روکی گئی اور ساتھ ہی نائی ٹروجن آکسائڈ اور ہائیڈروکاربن کے اخراج کو نمایاں طور پر اس حد تک کم کیا گیا ہے کہ ماحول باالکل خالص بن چکا ہے۔ مگر یہ سب کچھ مفت میں بھی نہیں ہوا بلکہ ایسا ایک بھاری قیمت پر ہوا۔ ہر ایک الیکٹرک بس کی خریداری پر 18 لاکھ یوان (قریب 1.85 کروڑ ہندوستانی روپے)خرچ کرنے پڑے ہیں۔ ان رقومات کے نصف پر چینی حکومت نے سبسڈی دی جبکہ ٹرانسپورٹ کے اس نئے نظام کو مقبول کرانے کے لئے ٹکٹ کی قیمتیں کم کردی گئیں۔ سرکار کے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں نے بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈال کر اسے کامیاب بنادیا۔

حکومت نے بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ان گاڑیوں کے بلا خلل آپریشن کو ممکن بنانے اور تاکہ ان میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو اس کے لئے کئی طرح کی احتیاط کرتی ہے۔گاڑیوں کی بیٹریز کو چارج کرنے کے لئے ٹھیک اسی طرح شہر کے 180 ڈیپوز میں چارجنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں تاکہ جس طرح عام گاڑیوں کے لئے پٹرول پمپ ہوتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے لئے چارج رکھنے کے بعد ایک گاڑی دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ان چارجنگ اسٹیشنوں پر نہ صرف بسوں کو بلکہ ٹیکسیوں کو چارج کرنے کی سہولت بھی ہے اور ایک موبائل اپلی کیشن بناکر ڈرائیورز کے لئے یہ سہولت بھی رکھی گئی ہے کہ وہ دورانِ سفر بھی چارجنگ اسٹیشن کی دستیابی کے بارے میں معلوم کرسکیں۔

چینی شہر شنزہن کی عالمی شہرت

شنزہن شہر کی اس کایا پلٹ سے متاثر ہوکر چینی حکومت اب اس ماڈل کو مزید 30 شہروں میں آزمانا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب نیویارک اور لندن جیسے دنیا کے بڑے شہروں میں اگلے 20 سال کے اندر عام ٹرانسپورٹ کو پوری طرح بجلی پر چلائے جانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔

تاہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے چین کے شہر شنزہن کا منظر نامہ اس سب کے برعکس ہے۔ وہاں کا ٹرانسپورٹ نظام پوری دنیا کو ایک جدید راستہ دکھاتا ہے ۔بس اور ٹیکسی زیادہ تر لوگوں کے لئے سفرکا بنیادی ذرئعہ ہے اور یہ دنیا باالخصوص میٹرو شہروں کے لئے، جو ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنا چاہتے ہیں، قوتِ حرکت ہے۔

الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی
الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی

حکومت کی پہل
محض چالیس سال قبل تک شنزہنہانگ کانگ کے نزدیک مچھلیاں پکڑنے کے لئے جانا جاتا رہا تاہم اب یہ ایک عظیم شہر میں بدل چکا ہے جہاں کی آبادی تقریباَ دو کروڑ ہے۔ چینی حکومت نے اس شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہترین بنانے اور آلودگی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مناسب منصوبہ بندی کرکے دس سال کے اندر اندر اس ہدف کو حاصل کرلیا۔ شنزہن میں 17 ہزار بسیں اور 20 ہزار ٹیکسیاں ہیں۔ اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چھوڑ کر یہاں روزانہ 20 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ دس سال قبل شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی۔چینی حکومت نے مختلف متبادلوں کی کھوج کی اور 2011 میں شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں پیلی الیکٹرک بس متعارف کی۔ چناچہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے اقدامات کئے اور دوسری جانب لوگوں نے بھی ان اقدامات کا خیر مقدم کیا۔ یہاں تک کہ اپنی گاڑیاں رکھنے والوں نے بھی عام ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کیا۔ اس عمل سے شنزہن دیکھتے ہی دیکھتے ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور ایک مزے دار رہائشی ماحول والا شہر بن گیا۔ ایک دہائی میں شہر کا ماحول اتنا تبدیل ہو گیا کہ آج بھی پوری دنیا انتہائی دلچسپی کے ساتھ یہاں کی طرف دیکھ رہی ہے۔

شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی (فائل فوٹو)
شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی (فائل فوٹو)

الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی

ٹرانسپورٹ نظام میں بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کی آمد سے شنزہن میں لوگوں نے ایک اور نمایاں تبدیلی یہ محسوس کی کہ انہیں بسوں کے پریشان کر دینے والے شورشرابا سے نجات ملی۔ اس شہر میں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے نپٹا گیا ہے وہیں گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی پوری طرح قابو میں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے شنزہن کے شہری ایک عجیب بلکہ مزاحیہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلنے والی گاڑیاں خطرناک ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ گاڑیوں سے کم از کم اتنی آواز آئے کہ جس سے ان کی آمد معلوم پڑتی ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی صورتحال کس حد تک بدل چکی ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومت لوگوں کے اس مطالبے کی منظوری پر مستعدی کے ساتھ سوچ و بچار کر رہی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو قابو کیا گیا ہے بلکہ ایندھن پر ہونے والے اخراجات کو نصف کیا گیا ہے۔ بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال سے سالانہ 1.60 لاکھ ٹن کوئلہ کی کھپت کم ہوچکی ہے اور یوں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے ساڑھے چالیس لاکھ ٹن کی ملاوٹ روکی گئی اور ساتھ ہی نائی ٹروجن آکسائڈ اور ہائیڈروکاربن کے اخراج کو نمایاں طور پر اس حد تک کم کیا گیا ہے کہ ماحول باالکل خالص بن چکا ہے۔ مگر یہ سب کچھ مفت میں بھی نہیں ہوا بلکہ ایسا ایک بھاری قیمت پر ہوا۔ ہر ایک الیکٹرک بس کی خریداری پر 18 لاکھ یوان (قریب 1.85 کروڑ ہندوستانی روپے)خرچ کرنے پڑے ہیں۔ ان رقومات کے نصف پر چینی حکومت نے سبسڈی دی جبکہ ٹرانسپورٹ کے اس نئے نظام کو مقبول کرانے کے لئے ٹکٹ کی قیمتیں کم کردی گئیں۔ سرکار کے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں نے بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈال کر اسے کامیاب بنادیا۔

حکومت نے بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ان گاڑیوں کے بلا خلل آپریشن کو ممکن بنانے اور تاکہ ان میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو اس کے لئے کئی طرح کی احتیاط کرتی ہے۔گاڑیوں کی بیٹریز کو چارج کرنے کے لئے ٹھیک اسی طرح شہر کے 180 ڈیپوز میں چارجنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں تاکہ جس طرح عام گاڑیوں کے لئے پٹرول پمپ ہوتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے لئے چارج رکھنے کے بعد ایک گاڑی دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ان چارجنگ اسٹیشنوں پر نہ صرف بسوں کو بلکہ ٹیکسیوں کو چارج کرنے کی سہولت بھی ہے اور ایک موبائل اپلی کیشن بناکر ڈرائیورز کے لئے یہ سہولت بھی رکھی گئی ہے کہ وہ دورانِ سفر بھی چارجنگ اسٹیشن کی دستیابی کے بارے میں معلوم کرسکیں۔

چینی شہر شنزہن کی عالمی شہرت

شنزہن شہر کی اس کایا پلٹ سے متاثر ہوکر چینی حکومت اب اس ماڈل کو مزید 30 شہروں میں آزمانا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب نیویارک اور لندن جیسے دنیا کے بڑے شہروں میں اگلے 20 سال کے اندر عام ٹرانسپورٹ کو پوری طرح بجلی پر چلائے جانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.