چیف جسٹس آف انڈیا کو بدعنوانی کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سوشیل میڈیا پر کئے گئے پوسٹ کے بعد توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کے خلاف 1 روپئے کا جرمانہ عائد کیا تھا جسے آج انہوں نے جمع کرادیا۔
پرشانت بھوشن کو جرمانہ کی رقم ادا کرنے کےلیے 15 ستمبر تک کا وقت دیا گیا تھا جبکہ اس کی ناکامی پر انہیں 3 ماہ کی جیل اور تین سال تک وکالت پر پابندی عائد کی جاسکتی تھی تاہم سینئر وکیل نے اس فیصلہ خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نے عمر خالد کی گرفتاری اور سیتا رام یچوری، یوگیندر یادو اور دیگر ماہرین تعلیم پر لگائے گئے الزامات پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام افراد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
انہوں نے بعد میں دہلی پولیس کی کاروائی پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’پولیس، تفتیش کی آڑ میں پرامن احتجاجیوں پر الزامات عائد کر رہی ہے جو ایک سازش ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’مرکزی حکومت اپنے خلاف اٹھتی آوازوں کو دبانے کےلیے مختلف ایجنسیز کا استعمال کر رہی ہے اور اپنی طاقت کا غلط فائدہ اٹھارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’مرکزی حکومت اظہار رائے کی آزادی کو کچلنا چاہتی ہے‘۔
قبل ازیں عدالت عظمی کی ایک بنچ جس کی نگرانی جسٹس ارون مشرا کررہے تھے نے 25 اگست کو توہین عدالت کیس میں پرشانت بھون کی سزا پر فیصلہ کو محفوظ کردیا تھا تاہم 31 اگست کو فیصلہ سنایا گیا۔
پرشانت بھوشن کے دو ٹوئٹس پر ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس چلایا گیا۔ پہلا پوسٹ انہوں نے 29 جون کو کیا تھا جس میں انہوں نے سی جے آئی بوبڈے کی ایک قیمتی بائیک پر سوار ہونے کی تصویر کا حوالہ دیا تھا۔ دوسرے ٹوئٹ میں بھوشن نے سابقہ 4 سی اے آئی پر تبصرہ کیا تھا۔