پروفیسر اختر نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ انسانی حقوق کے وزیر سے اس واقعہ کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کریں گی۔انہوں نے کہاکہ جامعہ انتظامیہ سے بغیر اجازت لیے پولیس زبردستی کیمپس میں گھسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا میں ایک افواہ پھیلائی جارہی ہے ایک بچے کی موت ہوگئی ہے جو سراسر بے بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اتوار کے واقعہ میں تقریباً 200افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں جامعہ کے طلبا ہیں۔جامعہ کے جو طلبا زخمی ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر بچے لائبریری میں پڑھائی کررہے تھے۔
پروفیسر اختر نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ آس پاس کے واقعات کو جامعہ سے جوڑ کر نہ دیکھے اور نہ چلائیں ۔اس سے یونیورسٹی کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔
وائس چانسلر نے کہا دھرنا ،مظاہرے کا اعلان اتوار کو طلبا نے نہیں کیاتھا بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقوں کے لوگوں نے کیاتھا۔وائس چانسلر کے مطابق یہ لوگ جب ریلی نکال رہے تھے تو جولینا میں پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی تب پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور پیچھا کرتے ہوئے یونیورسٹی اور لائبریری میں گھس گئی اور مارپیٹ اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔
جامعہ کے مولانا ابوالکلام آزاد گیٹ پر پولیس کی کارروائی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لوگ مظاہرہ کررہے ہیں۔وہیں کچھ طلبا ہاسٹل خالی کرکے اپنے اپنے گھروں کے لیے نکل رہے ہیں۔
گھر جانے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ اتوار کی رات پولیس نے ہاسٹل میں جس طرح بربریت سےکام لیا ہے اس سے ہم لوگ دہشت میں ہیں اور ہمارے گھر والے جلد از جلد واپس بلا رہے ہیں۔ایک دیگر طالبہ نے کہاکہ اتوار کی رات کا واقعہ بے حد خوفناک تھا۔پولیس طلبا کے ساتھ مجرموں کی طرح پیش آئی۔پولیس نے طلبہ کو گندی گندی گالیاں دیں۔
دوسری سمت طلبا پر پولیس کی کارروائی کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں ٹیچر اور طلبا انسانی زنجیر بناکر مظاہرہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے ذریعے زبردستی گھس کر مبینہ طور پر طلبا کے ساتھ مارپیٹ کرنے کے خلاف جامعہ،جواہر لال نہرو اور دہلی یونیورسٹی کے سیکڑوں طلبا نے اتوار کو نئی دہلی میں واقع پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرے میں کئی ٹیچر بھی شامل تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ جامعہ میں پولیس کی کارروائی اور آنسوں گیس کے دھویں سے دم گھٹنے کی وجہ سے ایک طالب علم کی موت ہوگئی ہے۔حالانکہ پولیس افسر نے کسی کی موت سے انکار کیا ہے۔
جامعہ کی وائس چانسلر نے کہا ہے کہ اتوار کو احتجاجی مظاہرے کا اعلان طلبہ نے نہیں کیا تھا بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقوں کے لوگوں نے کیا تھا۔وائس چانسلر کے مطابق یہ لوگ جب ریلی نکال کر کر جارہے تھے تو جولینا میں پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی ،تب پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور پیچھا کرتے ہوئے یونیورسٹی اور لائبریری میں گھس گئی اور مارپیٹ اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔جنوبی دہلی کے پولیس کمشنر نے بتایا کہ پولیس نے کوئی فائرنگ نہیں کی ہے۔
اس دوران کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر بے قصور طلبا پر ظلم کیا ہے اور اس معاملے کی جانچ ہونی چاہیئے۔پارٹی نے الزام لگایا کہ بار بار یونیورسٹیوں کو سیاست کا اکھاڑا بنایا جارہا ہے ۔حیدرآباد، الہ آباد، جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے رہنما غلام نبی آزاد نے بھی پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر جامعہ میں داخل ہوگئی۔یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پولیس تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوسکتی۔اس لیے اس معاملے میں پولیس خود قصوروار ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ سے اپیل کی تھی کہ شہریت ترمیمی قانون حکومت نہ لائے۔اس سے حالات متنازعہ ہوجائیں گے اور یہی ہورہا ہے۔