مرزا اسد اللہ غالب کا شمار اردو کے سر فہرست شعراء میں شمار کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کم عمری کے دوران ہی کیا تھا لیکن غالب کا سفر کلکتہ ادبی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اسے جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ماہرین غالب سے بات کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ کیوں اس سفر کو ادبی لحاظ سے اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔
Poet Mirza Ghalib's love for Kolkata
دارالحکومت دہلی کے راوز ایوانیو میں واقع ایوان غالب میں آج غالب کا سفر کلکتہ کے عنوان پر دو روزہ قومی سیمینار منعقد ہوا، جس میں ملک کے کونے کونے سے ماہرین غالب نے شرکت کی اس دوران اس بات پر بھی تبادلہ خیال ہوا کہ آخر کیوں یہ سفر اتنا اہم ہے۔
نمائندہ سے بات کرتے ہوئے رخشندہ جلیل نے بتایا کہ مرزا غالب کا یہ سفر اس وقت مکمل ہوا جب سفر کے لیے سہولیات بھی دستیاب نہیں تھی، اور پھر انہوں نے اس سفر کے دوران جو خطوط لکھے اور ٹیلی گرام بھیجے وہ ادبی اثاثہ ہے۔ یہ سفر نہ صرف طویل تھا بلکہ اس کی مدت کار بھی کافی زیادہ تھی، سال 1826 میں اس سفر کا آغاز ہوا تھا جو 1829 میں جاکر مکمل ہوا تھا۔
وہیں پروفیسر قاضی جمال حسین نے بتایا کہ سفر کلکتہ کے دوران لکھنو میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا آغا میر کے سلسلے میں جو قصیدہ انہوں نے لکھا جو بعد میں پیش نہیں کیا جا سکا یا لکھنؤ میں انہوں نے کچھ غزلیں کہیں وہ اس سفر کا حاصل ہے۔اس کے علاوہ بنارس میں لکھی گئی ان کی مثنوی چراغ دیر ادب کا شاہکار ہے، غالب کے سب سے بڑے کارناموں میں اس کا شمار کیا جاتا ہے۔
پروفیسر جمال نے بتایا کہ کسی شہر کے بارے میں اتنی فنکارانہ مثنوی اب تک نہیں لکھی گئی جتنی مرزا غالب نے اپنے سفر کلکتہ کے دوران بنارس میں قیام کے دوران لکھی ہے۔
مزید پڑھیں:Tribute to Mirza Ghalib: غالب کے اشعار کو تصویر کے ذریعے پیش کرنے والے مصور سے ملیے
انہوں نے مزید کہا کہ سفر کلکتہ کے دوران لکھے گئے خطوط ہی ہیں جن کے ذریعہ ہمیں غالب کی زندگی سے متعلق ان باتوں کا پتہ چلتا ہے جو ان کی ذاتی زندگی سے منسلک تھی اگر مرزا غالب اپنی پینشن کے لیے یہ سفر نہ کرتے تو شاید ہمارے پاس ان کا یہ ادبی سرمایہ بھی نہ ہوتا۔