زبان پر مبنی اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش ریاستوں میں اردو داں طبقہ کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن جنوبی ریاستوں کی حالت فی الحال تھوڑی بہتر ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ شعر تقسیم ہند سے پہلے کی کہانی بیان کرتا ہے لیکن موجودہ دور میں اردو کی حالت خستہ نظر آتی ہے، تاہم دارالحکومت دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے اطراف میں قائم اردو بازار میں گزشتہ 45 برسوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے علی خسرو زیدی نے بتایا کہ اردو کی حالت پہلے کے مقابلے اب بہتر ہے۔
آزادی سے قبل قائم کردہ کتب خانہ عزیزیہ میں اپنے دادا کی گدی سمبھالنے والے احمد نبیل بتاتے ہیں کہ ایک دور تھا جب اسی بازار میں ادباء، رفقاء، شعرا اور سیاسی رہنماؤں کی محفل سجا کرتی تھی لیکن اب اس بازار میں کوئی نہیں آتا۔
یہ سچ ہے کہ زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میں عام طور پر مسلمان ہی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرواتے ہیں حالانکہ اب نوجوان نسل کا رجحان اردو کی شیرینی پر پڑا ہے تاہم اس کے باوجود گزشتہ عشرے کی مردم شماری سے یہ ظاہر ہے کہ حالات خراب ہیں۔
زبان پر مبنی اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش ریاستوں میں اردو داں طبقہ کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن جنوبی ریاستوں کی حالت فی الحال تھوڑی بہتر ہے۔