ETV Bharat / state

دہلی اور ہریانہ کے علاقہ میں آبی سطح میں کمی

جمنا کی سطح میں کمی کے بعد دہلی اور ہریانہ میں دریا کے آس پاس کے علاقوں میں سیلاب کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے۔

دہلی اور ہریانہ کے علاقہ میں آبی سطح میں کمی
author img

By

Published : Aug 22, 2019, 1:58 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 9:17 PM IST

دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے بعد ٹوئٹ کرکے کہا کہ اب آپ چین کی سانس لے سکتے ہیں۔ فی الحال سیلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے اور جمنا کا پانی کچھ گھنٹوں سے مسلسل کم ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ہریانہ سے بھی اب کم پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ جمنا کی سطح 206.60 تک پہنچ گئی تھی۔یہ اب 206.44 ہو گیا ہے۔ دو دن زبردست تناؤ رہا۔ رات دن ہم لوگ حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعلی نے کہاکہ اس بات کا سب سے زیادہ اطمینان ہے کہ کسی جان کا نقصان نہیں ہوا۔ ان محکموں، افسروں اور ملازمین کو شکریہ جنہوں نے رات دن محنت کی۔ پانی مکمل طور کم ہو جانے کے بعد اب ہمیں سبھی لوگوں کو اپنے گھروں میں پہنچانا ہے۔

وزیراعلیٰ نے شمال مشرقی دہلی کے متاثرہ علاقے عثمان پور میں رہنے والے لوگوں سے ملاقات کی اور انہوں نے ریلیف کیمپوں کا جائزہ بھی لیا۔ جمنا ندی کی آبی سطح بڑھنے کے بعد پشتہ علاقے کے بہت سے گھر سیلاب کی زد میں آ گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بیاس ستلج لنک پروجیکٹ کے ذریعہ بیاس دریا سے ستلج دریا میں 8400 کیوسک کے بہاؤ کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔
بھاكھڑا ڈیم کی آبی سطح 1681.33 فٹ تک پہنچ جانے کی وجہ ڈیم کی حفاظت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بورڈ کو 16 اگست سے ’سپل وے ‘کے ذریعہ 538 كيومیك (19000 کیوسک) کنٹرولڈ پانی چھوڑنا پڑا جو 19 اگست کو شام چار بجے بڑھ کر 1160 كيومیك (41000 کیوسک) ہو گیا۔ یہ ٹربائن کے ذریعہ بجلی کی پیداوار کے لیے چھوڑے جانے والے پانی سے زائد تھا۔

مسٹر اگروال نے بتایا کہ بورڈ بھاكھڑا ڈیم ذخائر میں پانی کے بہاؤ کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ہی ڈیم سے چھوڑے جا رہے پانی کا جائزہ ہر گھنٹہ لیا جارہاہے۔

قابل ذکر ہے کہ بورڈ نے ستلج ندی میں پانی کے بہاؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ مئی اور جون میں بھی زیادہ پانی چھوڑا تھا۔

مانسون کی شروعات سے پہلے 25 جون تک آبی سطح کو 1624.18 فٹ سے 1604 فٹ تک تقریبا 20 فٹ نیچے لایا گیا تھا۔ ذخائر کی سطح، بہاؤ اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے تکنیکی کمیٹی کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی جس میں ریجنل ڈائرکٹر، آئی ایم ڈی نے مطلع کیا کہ 18 اگست کو ہماچل پردیش کے بلاسپور،اونا، ہمیر پور اور شملہ اضلاع میں بالترتیب 252.5 ایم ایم ، 147.7 ایم ایم، 134.7 ایم ایم اور 104.8 ملی میٹر بارش ہوئی۔

ان اضلاع میں بھاكھڑا ذخائر کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بلاسپور اور اونا اضلاع کے ’کینچمنٹ ڈاؤن اسٹريم‘ میں بارش کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ہونے والی بارش کی وجہ سے پنجاب کے علاقوں میں 20 ہزار کیوسیک سے زائد پانی آ گیا۔

بھاكھڑا ذخائر سے پانی چھوڑنے کا سلسلہ اب بھی جاری رہے گا اور یہ پانی دریائےستلج کے ذریعے پنجاب کے ان اضلاع میں اور تباہی مچائےگا جہاں جهاں سے ستلج گزرتی ہے۔ ابھی تک تقریبا دو سو گاؤں ڈوبے ہوئے ہیں اور فصلوں کو تو جونقصان ہوا وہ الگ ہے، لیکن بے بس لوگوں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔

کچھ لوگ تو گھروں کی چھتوں پر وقت گزارنے پر مجبور ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔ریاستی حکومت کے ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہیں اور بھوکے پیاسے لوگوں کے لئے ہیلی کاپٹروں سے کھانے کے پیکٹ پھینکنے کا کام جاری ہے۔

اس درمیان پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے ریاست میں سیلاب کی صورتحال تشویشناک ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک ہزار کروڑ روپے کا خصوصی پیکیج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کو لکھے خط میں ان سے درخواست کی ہے کہ مرکز متاثر ہ گاؤں کے کسانوں کو ریلیف کے طور پر متعلقہ حکام کو متاثرہ کسانوں کا بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا گیا زرعی قرض معاف کرنے کی ہدایات دیں۔ ریاست میں 1988 میں آئے سیلاب سے بھی یہ سیلاب خوفناک ہے۔

ریاست میں بھاری بارش اور بھاكھڑا ڈیم سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے دریائے ستلج میں سیلاب آیا جس سے ریاست کے سینکڑوں گاؤں تباہ ہو گئے اور اتنے ہی خالی کرائے گئے۔

کاشت کاروں کی لهلهاتي فصل برباد ہو گئیں۔ماضی میں سنہ 1958 میں بھی سیلاب آیا تھا جس میں زبردست تباہی دیکھنے کو ملی تھی۔ اب تک اس سیلاب سے 1700 کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔

متاثرہ علاقوں میں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقہ دیئے جانے کے بارے میں وزیر اعلی نے کہا کہ فوج اور این ڈی آر ایف کی جانب سے ضروری مدد مل رہی ہے، اس کے باوجود سیلاب کا پانی گھٹنے کا نام نہیں لے رہاہے جس کا اثر دیہی اور شہری علاقوں میں دیکھا جا رہا ہے۔

سیلاب کا سب سے زیادہ اثر فیروز پور، روپڑ، لدھیانہ، جالندھر، کپورتھلا اضلاع کے سو سے زائد دیہات میں پڑا ہے۔

وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے ریاستی حکومت کے متعلقہ حکام کو مرکز سے خصوصی ریلیف پیکیج کے لئے مطالبہ نامہ تیار کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ ریاست کے 326 گاؤں بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور سوا لاکھ ایکڑ میں کھڑی فصل برباد ہو گئی۔

فوج، این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے جوان رات دن امداد اور بچاؤ کے کام میں مصروف ہیں۔ سیلاب سےفیروز پور اور جالندھر اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ افسران حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ریاست میں راحت اور امدادی کام جنگی سطح پر جاری ہے اور اب تک متاثر گاؤوں سے 5023 لوگوں کو بچایا گیا ہے۔

دریں اثنا دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے کی وجہ سےپاکستان کے کئی گاؤوں میں سیلاب کا پانی گھس گیا ہے جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا یا پھر کسی محفوظ مقام پر پناہ لینی پڑی۔

پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے اس ہفتہ کے شروع میں دریائےستلج میں 38 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا جس سے اس کے درجنوں گاؤں پانی میں ڈوب گئے اور بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

’جیو نیوز‘ کے مطابق بدھ کو 50 سے زائد گاؤں دریائے ستلج کے سیلابی پانی سے ڈوب ہو گئے۔ ان گاؤوںمیں قصور، چاچرن شریف، کوٹ متھان، چندہ سنگھ والہ، گاٹي كالانگیر، مستياكي اور بھيكھي ونڈ شامل ہیں۔سیلاب کی وجہ سے دریائےستلج کی زد میں آنے والی سینکڑوں ایکڑ زمین پر کھڑی فصل بھی تباہ ہو گئی ہے۔

سیلاب سے 1122 لوگوں کو بچایا گیا ہے۔پاکستان میں فوج کے عملہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کے متعلقہ حکام نے مطلع کئے بغیر ہی دو لاکھ کیوسک پانی دریا میں چھوڑے جانے کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ستلج کے ارد گرد کے علاقوں میں سیلاب جیسی صورتحال کو لے کر پہلے ہی الرٹ جاری کیا تھا۔

گاندا سنگھ والہ میں 37640 کیوسک کے ساتھ منگل کو آبی سطح 17.8 فٹ تھی۔ این ڈی ایم اے کے ترجمان بریگیڈیئر مختار احمد کے مطابق بدھ کو آبی سطح ایک سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا امکان تھا۔

دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے بعد ٹوئٹ کرکے کہا کہ اب آپ چین کی سانس لے سکتے ہیں۔ فی الحال سیلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے اور جمنا کا پانی کچھ گھنٹوں سے مسلسل کم ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ہریانہ سے بھی اب کم پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ جمنا کی سطح 206.60 تک پہنچ گئی تھی۔یہ اب 206.44 ہو گیا ہے۔ دو دن زبردست تناؤ رہا۔ رات دن ہم لوگ حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعلی نے کہاکہ اس بات کا سب سے زیادہ اطمینان ہے کہ کسی جان کا نقصان نہیں ہوا۔ ان محکموں، افسروں اور ملازمین کو شکریہ جنہوں نے رات دن محنت کی۔ پانی مکمل طور کم ہو جانے کے بعد اب ہمیں سبھی لوگوں کو اپنے گھروں میں پہنچانا ہے۔

وزیراعلیٰ نے شمال مشرقی دہلی کے متاثرہ علاقے عثمان پور میں رہنے والے لوگوں سے ملاقات کی اور انہوں نے ریلیف کیمپوں کا جائزہ بھی لیا۔ جمنا ندی کی آبی سطح بڑھنے کے بعد پشتہ علاقے کے بہت سے گھر سیلاب کی زد میں آ گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بیاس ستلج لنک پروجیکٹ کے ذریعہ بیاس دریا سے ستلج دریا میں 8400 کیوسک کے بہاؤ کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔
بھاكھڑا ڈیم کی آبی سطح 1681.33 فٹ تک پہنچ جانے کی وجہ ڈیم کی حفاظت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بورڈ کو 16 اگست سے ’سپل وے ‘کے ذریعہ 538 كيومیك (19000 کیوسک) کنٹرولڈ پانی چھوڑنا پڑا جو 19 اگست کو شام چار بجے بڑھ کر 1160 كيومیك (41000 کیوسک) ہو گیا۔ یہ ٹربائن کے ذریعہ بجلی کی پیداوار کے لیے چھوڑے جانے والے پانی سے زائد تھا۔

مسٹر اگروال نے بتایا کہ بورڈ بھاكھڑا ڈیم ذخائر میں پانی کے بہاؤ کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ہی ڈیم سے چھوڑے جا رہے پانی کا جائزہ ہر گھنٹہ لیا جارہاہے۔

قابل ذکر ہے کہ بورڈ نے ستلج ندی میں پانی کے بہاؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ مئی اور جون میں بھی زیادہ پانی چھوڑا تھا۔

مانسون کی شروعات سے پہلے 25 جون تک آبی سطح کو 1624.18 فٹ سے 1604 فٹ تک تقریبا 20 فٹ نیچے لایا گیا تھا۔ ذخائر کی سطح، بہاؤ اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے تکنیکی کمیٹی کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی جس میں ریجنل ڈائرکٹر، آئی ایم ڈی نے مطلع کیا کہ 18 اگست کو ہماچل پردیش کے بلاسپور،اونا، ہمیر پور اور شملہ اضلاع میں بالترتیب 252.5 ایم ایم ، 147.7 ایم ایم، 134.7 ایم ایم اور 104.8 ملی میٹر بارش ہوئی۔

ان اضلاع میں بھاكھڑا ذخائر کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بلاسپور اور اونا اضلاع کے ’کینچمنٹ ڈاؤن اسٹريم‘ میں بارش کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ہونے والی بارش کی وجہ سے پنجاب کے علاقوں میں 20 ہزار کیوسیک سے زائد پانی آ گیا۔

بھاكھڑا ذخائر سے پانی چھوڑنے کا سلسلہ اب بھی جاری رہے گا اور یہ پانی دریائےستلج کے ذریعے پنجاب کے ان اضلاع میں اور تباہی مچائےگا جہاں جهاں سے ستلج گزرتی ہے۔ ابھی تک تقریبا دو سو گاؤں ڈوبے ہوئے ہیں اور فصلوں کو تو جونقصان ہوا وہ الگ ہے، لیکن بے بس لوگوں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔

کچھ لوگ تو گھروں کی چھتوں پر وقت گزارنے پر مجبور ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔ریاستی حکومت کے ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہیں اور بھوکے پیاسے لوگوں کے لئے ہیلی کاپٹروں سے کھانے کے پیکٹ پھینکنے کا کام جاری ہے۔

اس درمیان پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے ریاست میں سیلاب کی صورتحال تشویشناک ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک ہزار کروڑ روپے کا خصوصی پیکیج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کو لکھے خط میں ان سے درخواست کی ہے کہ مرکز متاثر ہ گاؤں کے کسانوں کو ریلیف کے طور پر متعلقہ حکام کو متاثرہ کسانوں کا بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا گیا زرعی قرض معاف کرنے کی ہدایات دیں۔ ریاست میں 1988 میں آئے سیلاب سے بھی یہ سیلاب خوفناک ہے۔

ریاست میں بھاری بارش اور بھاكھڑا ڈیم سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے دریائے ستلج میں سیلاب آیا جس سے ریاست کے سینکڑوں گاؤں تباہ ہو گئے اور اتنے ہی خالی کرائے گئے۔

کاشت کاروں کی لهلهاتي فصل برباد ہو گئیں۔ماضی میں سنہ 1958 میں بھی سیلاب آیا تھا جس میں زبردست تباہی دیکھنے کو ملی تھی۔ اب تک اس سیلاب سے 1700 کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔

متاثرہ علاقوں میں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقہ دیئے جانے کے بارے میں وزیر اعلی نے کہا کہ فوج اور این ڈی آر ایف کی جانب سے ضروری مدد مل رہی ہے، اس کے باوجود سیلاب کا پانی گھٹنے کا نام نہیں لے رہاہے جس کا اثر دیہی اور شہری علاقوں میں دیکھا جا رہا ہے۔

سیلاب کا سب سے زیادہ اثر فیروز پور، روپڑ، لدھیانہ، جالندھر، کپورتھلا اضلاع کے سو سے زائد دیہات میں پڑا ہے۔

وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے ریاستی حکومت کے متعلقہ حکام کو مرکز سے خصوصی ریلیف پیکیج کے لئے مطالبہ نامہ تیار کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ ریاست کے 326 گاؤں بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور سوا لاکھ ایکڑ میں کھڑی فصل برباد ہو گئی۔

فوج، این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے جوان رات دن امداد اور بچاؤ کے کام میں مصروف ہیں۔ سیلاب سےفیروز پور اور جالندھر اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ افسران حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ریاست میں راحت اور امدادی کام جنگی سطح پر جاری ہے اور اب تک متاثر گاؤوں سے 5023 لوگوں کو بچایا گیا ہے۔

دریں اثنا دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے کی وجہ سےپاکستان کے کئی گاؤوں میں سیلاب کا پانی گھس گیا ہے جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا یا پھر کسی محفوظ مقام پر پناہ لینی پڑی۔

پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے اس ہفتہ کے شروع میں دریائےستلج میں 38 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا جس سے اس کے درجنوں گاؤں پانی میں ڈوب گئے اور بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

’جیو نیوز‘ کے مطابق بدھ کو 50 سے زائد گاؤں دریائے ستلج کے سیلابی پانی سے ڈوب ہو گئے۔ ان گاؤوںمیں قصور، چاچرن شریف، کوٹ متھان، چندہ سنگھ والہ، گاٹي كالانگیر، مستياكي اور بھيكھي ونڈ شامل ہیں۔سیلاب کی وجہ سے دریائےستلج کی زد میں آنے والی سینکڑوں ایکڑ زمین پر کھڑی فصل بھی تباہ ہو گئی ہے۔

سیلاب سے 1122 لوگوں کو بچایا گیا ہے۔پاکستان میں فوج کے عملہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کے متعلقہ حکام نے مطلع کئے بغیر ہی دو لاکھ کیوسک پانی دریا میں چھوڑے جانے کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ستلج کے ارد گرد کے علاقوں میں سیلاب جیسی صورتحال کو لے کر پہلے ہی الرٹ جاری کیا تھا۔

گاندا سنگھ والہ میں 37640 کیوسک کے ساتھ منگل کو آبی سطح 17.8 فٹ تھی۔ این ڈی ایم اے کے ترجمان بریگیڈیئر مختار احمد کے مطابق بدھ کو آبی سطح ایک سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا امکان تھا۔

Intro:Body:

news


Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 9:17 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.