مشہور و معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کی دو درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ وہ شاعری میں بھی لازوال حصول علم اور ادب و تنقید کا گہوارہ تھے، وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں لیکچر دینے جا چکے تھے، انہیں اعزازی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لیٹ کی ڈگری دی جا چکی ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز علامہ اقبال جیسے عالم کو دیا گیا تھا۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اردو دنیا سے منسلک مختلف افراد سے اس متعلق بات کی۔ اس دوران پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ 'شمس الرحمن فاروقی کے مرحوم ہونے سے جو اردو دنیا کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، اس کی بھرپائی مستقل میں کرنا مشکل ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان کے انتقال کی خبر اردو دنیا کے لیے ایک بہت نقصان ہے۔ وہ ایک روشن مینار تھے۔ بیسویں صدی کے 8 ویں عشرے سے تاحال انہوں نے اپنے علم و دانش کی روشنی سے سے اردو دنیا کو سیراب کیا۔'
پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ 'فاروقی صاحب نے داستان امیر حمزہ جیسی طویل ترین داستان پر جو کام کیا ہے وہ شاید ہی کوئی دوسرا کر پایا۔ انہوں نے اردو کے کلاسیکی ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا، انہوں نے یورپ اور امریکہ میں داستان گوئی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی جانے سے اردو ادب کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔'
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہا کہ 'تدبر، تحمل اور بردباری فاروقی صاحب کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔ میرے نزدیک ان کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے علمی ادبی اور تخلیقی سرمائے میں اضافہ کیا ہے۔'