بھارتی پارلیمنٹری پینل کو ٹوئٹر کی جانب سے بھیجے گئے معافی نامہ پر چیف پرائیویسی آفیسر ڈیمئین کیرین کی دستخط ثبت ہے جبکہ معافی نامہ میں اس بات کی غلطی کا اطراف کیا گیا کہ ٹوئٹر پر غلط جیوٹیگنگ کے ذریعہ لداخ کو چینی علاقہ بتایا جارہا ہے۔ ٹوئٹر نے اپنی غلطی کو جاریہ ماہ کے اختتام تک سدھارنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
گذشتہ ماہ لداخ کو چین کا علاقہ ظاہر کرنے پر پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی برائے ڈیٹا پروٹیکشن بل نے ٹوئٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور امریکی فرم سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی تھی۔
میناکشی لیکھی کی سربراہی میں پینل کے سامنے ٹوئٹر انڈیا کے نمائندوں نے پیش ہوکر معافی مانگی تھی لیکن ارکان نے غلطی کو مجرمانہ حرکت قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں ایک حلف نامہ داخل کرنے کو کہا تھا۔ میناکشی لیکھی نے کہا کہ ’ٹوئٹر نے لداخ کو چینی علاقہ دکھائے جانے پر تحریری طور پر حلف نامہ داخل کرکے معافی مانگی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹوئٹر نے بھارتی جذبات مجروح ہونے پر معافی مانگی ہے اور 30 نومبر 2020 تک غلطی کو سدھارنے کا حلف نامہ میں اقرار کیا ہے‘۔
قبل ازیں وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی نے ٹویٹر کو بھارت کا غلط نقشہ دکھانے پر قانونی کاروائی شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلہ میں 9 نومبر کو ٹویٹر کے نائب صدر کو ایک نوٹس روانہ کی گئی تھی۔
وہیں 22 اکتوبر کو آئی ٹی سکریٹری اجے ساوہنے نے ٹوئٹر کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ 'مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم کی جانب سے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کی توہین ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر کو حساسیت کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا'۔ اجے ساوہنے نے ٹوئٹر کے سی ای او جیک دورسے کو سخت الفاظ میں خط لکھ کر بھارتی نقشہ کی غلط تشریح کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ آئی ٹی سکریٹری نے مزید کہا کہ اس طرح کی کوشش سے نہ صرف ٹوئٹر کی بدنامی ہوگی بلکہ ایپ کی غیرجانبداری اور انصاف پسندی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ حکومت نے ٹوئٹر سے بھارتی شہریوں کی حساسیت کا احترام کرنے کا مشورہ دیا اور یہ بھی واضح کیا کہ ٹوئٹر کی جانب سے بھارتی خودمختاری اور سالمیت کی توہین کی کوشش ناقابل قبول اور غیرقانونی ہے۔
ٹوئٹر انڈیا پر جموں و کشمیر کو چین کا حصہ بتایا جارہا ہے۔ آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے فیلو کنچن گپتا نے بتایا تھا کہ ٹوئٹر کے ٹائم لائنز پر جموں و کشمیر کو چینی علاقہ بتایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مرکزی وزیر مواصلات روی شنکر پرساد کو ٹوئٹر پر ٹیگ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ٹوئٹر نے جغرافیہ کو بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اور جموں و کشمیر کو چین کا علاقہ بتایا جارہا ہے، کیا یہ بھارتی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟‘ اس مسئلہ پر سوشیل میڈیا پر بحث جاری ہے اور ٹوئٹر پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ بھارتی شہریوں کی جانب سے اس مسئلہ پر سخت غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ ٹوئٹر پر صارفین کو لوکیشن سروس استعمال کرنے کی سہولت رہتی ہے جس میں جموں و کشمیر لکھنے پر اسے پیپلز ریپبلکن آف چین کا حصہ دکھایا جارہا ہے۔ ٹوئٹر پر صارفین کو اپنے ٹویٹس کے ساتھ اپنے شہر کا ٹیگ لگانے کی سہولت دی جاتی ہے۔