گزشتہ 22 اکتوبر کو عمر خالد کی شکایت پر کورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو پیش ہونے کی ہدایت دی تھی۔
22 اکتوبر کو عمر خالد اور شرجیل امام کو یو اے پی اے کے تحت درج معاملے میں کورٹ میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش کیا گیا تھا، سماعت کے دوران عمر خالد نے کورٹ سے شکایت کی کہ 'مجھے اپنے سیل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور کسی کو مجھ سے بات نہیں کرنے دی جاتی ہے۔'
عمر خالد نے کہا تھا کہ جب جیل سپرنٹنڈنٹ مجھ سے ملے تو میں نے ان سے شکایت کی، اس کے بعد انہوں نے مجھے 10 منٹ کے لیے سیل سے باہر جانے کی اجازت دی، اور جب جیل سپرنٹنڈنٹ واپس چلے گئے تو مجھے پھر سیل میں بھیج دیا گیا، عمر نے کہا تھا کہ مجھے سکیورٹی چاہیے لیکن اس طرح کی نہیں کہ میں باہر بھی نا جا سکوں۔
عمر خالد کی شکایت کے بعد کورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو پیش ہونے کی ہدایت دی تھی، تب عمر خالد کے وکیل نے کہا تھا کہ کہیں ایسا نہیں ہو کہ کورٹ میں شکایت کرنے کا خمیازہ عمر خالد کو بھگتنا پڑے، اسی لیے آج کے حکم میں لکھوائیں۔ تب کورٹ نے کہا تھا کہ آپ کورٹ پر بھروسہ رکھیں، ہم نے کئی ہدایات دی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر زیر غور قیدی کوئی شکایت کرتا ہے تو اسے سزا نہ دیں۔
سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے وکیل امت پرساد نے کہا تھا کہ انہوں نے عمر خالد، شرجیل امام اور فیضان کی عدالتی تحویل میں 30 دن کی توسیع کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ تب کورٹ نے کہا تھا کہ بغیر فائل دیکھے 30 دن عدالتی تحویل میں توسیع نہیں کرسکتے۔
کورٹ نے دہلی پولیس سے کہا تھا کہ عرضی ملزمین کے وکیل کو بھی میل کر دیجئے۔ اس کے بعد کورٹ نے شرجیل امام، عمر خالد اور فیضان خان کے معاملے پر آج سماعت کا حکم دیا۔