حال ہی میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ دہلی میں 38 ہزار نوجوان ایسے ہیں جو ہر روز نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان نشہ آور چیزوں کا استعمال خوشبو کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دہلی میں منشیات کا پھیلائو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ماہر نفسیات ڈاکٹر اتُل امبیڈکر نے بتایا کہ دارالحکومت دہلی میں 21.3 فیصد لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ جن میں 6.2 فیصد ایسے افراد ہیں جو مکمل طور پر منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ شراب کافی زیادہ پیتے ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ بھانگ بھی بڑے پیمانے پر منشیات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف دہلی میں 8.12 فیصد لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں سے 1.92 فیصد لوگ ایسے ہیں جو اس لت کے عادی ہو چکے ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔
دارالحکومت دہلی میں، جس طرح سے پب اور ریستوراں میں منشیات کی فراہمی ہوتی ہے، نوجوان سب سے زیادہ اس کی زد میں ہیں۔ ان منشیات میں ہیروئن، چرس، افیون شامل ہیں۔ دہلی میں 7.19 فیصد لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں اور 2.3 فیصد لوگ اس کے عادی ہیں۔
نیند کی گولیوں سے بھی کرتے ہیں نشہ۔
ڈاکٹر اتل نے آگے بتایا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سارے لوگ نیند کی گولیوں کو بھی منشیات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جس کا دماغ پر خاص اثر پڑتا ہے۔ دہلی میں 2.92 فیصد اس لت کا شکار ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر اتل نے مزید بتایا کہ جس طرح دہلی میں نوجوانوں نشے کی لت میں مبتلا ہور ہے ہیں اور ان کے علاج میں ایمس اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
غازی آباد میں ایک ڈیڈیکشن اسپتال ہے، جو طویل عرصے سے نشہ کرنے والوں کو نشہ چھڑانے میں مدد کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس اسپتال میں ماہر کائونسلرز کے ذریعہ لوگوں کا علاج کرایا جارہا ہے۔
سونگھنے والی دوائی کے نشہ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 10 سال سے 25 سال کے درمیان کے نوجوانوں میں نشہ آور اشیاء کا استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس میں اہم بات یہ ہے کہ جوانی میں سستے نشے کی وجہ سے ، ذہنی توازن پر بہت اثر پڑتا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں کے بارے میں بات کریں تو ، نشے کی اس سطح میں دہلی کا پانچواں مقام ہے۔
فی الحال، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ 'ہم کتنی بھی کوشش کریں ، جب تک صحت کی سہولیات بہتر نہیں ہوگی لوگوں کو اس سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت سے ان کا مطالبہ ہے کہ اس حساس معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے۔