ETV Bharat / state

جلیان والا باغ: بھارت کی تحریک آزادی کا ایک اہم موڑ

اگر کسی واقعہ کو ایسا لمحہ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے واضح طور پر بھارت کی آزادی کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنا دیا تو وہ 13 اپریل 1919 کا جلیان والا باغ قتل عام تھا۔ اس واقعہ میں انگریزوں سے آزادی کےلیے غیرمتشدد جدوجہد میں بہت زیادہ خون بہایا گیا اور خون میں لت پت فرش اور گولیوں سے چھلنی دیواروں نے تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ آزادی کے اس 75 ویں سال کے موقع پر آئیے ہم ان بے گناہ لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو برطانوی آمریت کے ہاتھوں مارے گئے۔

جلیان والا باغ: بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم موڑ
جلیان والا باغ: بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم موڑ
author img

By

Published : Sep 3, 2021, 11:03 PM IST

Updated : Sep 4, 2021, 12:06 PM IST

اگر کسی واقعہ کو ایسا لمحہ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے واضح طور پر بھارت کی آزادی کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنادیا، تو وہ 13 اپریل 1919 کا جلیان والا باغ قتل عام تھا۔ خون میں لت پت فرش اور گولیوں سے چھلنی دیواروں نے تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ آزادی کے اس 75 ویں سال کے موقع پر آئیے ہم ان بے گناہ لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو برطانوی آمریت کے ہاتھوں مارے گئے۔

جلیان والا باغ: بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم موڑ

قتل عام سے قبل برٹش انڈیا کی شمال مغربی سرحد پر سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ 1913 کی غدر تحریک اور 1914 کے کاماگاٹا مارو واقعہ نے پنجاب کے لوگوں میں انقلاب کی لہر پیدا کی تھی جب 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو بہت سے بھارتی فوجی اس میں شامل ہوئے۔ جنگ عظیم کے دوران برٹش آرمی میں شامل 1.95 لاکھ بھارتی فوجیوں میں سے 1 لاکھ 10 ہزار فوجیوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔

پہلی بار ملک سے باہر یوروپ گئے سپاہیوں میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ ابھررہا تھا۔ انہوں نے دنیا دیکھی اور ملک کا کیا مطلب ہے، یہ جانا۔ اس دوران برطانوی خوفزدہ تھے کہ اگر یہ فوجی بغاوت پر اترآئے تو ان پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا جبکہ حکومت کے پاس اس وقت انہیں روکنے کے لیے کوئی سخت قانون بھی نہیں تھا۔ پنجاب میں بدلتے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے ایک نیا قانون بنانے کےلیے فکرمند تھے تاہم رولٹ ایکٹ کا مسودہ تیار کیا گیا۔

رولٹ ایکٹ کا مسودہ پیش ہوا تو اس قانون کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مقامی صحافت نے اس پر تفصیل سے بحث شروع کی جس کے بعد سخت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ امرتسر میں بھی شیڈول کے مطابق احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ ان تمام احتجاج کے باوجود رولٹ ایکٹ کو 18 مارچ 1919 کو منظوری دے دی گئی۔

پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں دو رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک نمایاں تھے۔ مہاتما گاندھی کو بھی مظاہروں میں شرکت کی دعوت دی گئی جبکہ وہ 2 اپریل 1919 کو پنجاب آنے والے تھے لیکن انہیں پلوال میں ہی روک دیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا جس کے بعد برطانوی حکومت نے ان دونوں رہنماؤں کو پھنسانے کا فیصلہ کیا جو مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ امرتسر کے ضلعی کمشنر، میلز ارونگ نے 10 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کو اپنے دفتر بلایاکر انہیں غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کو امرتسر سے منتقل کر کے دھرم شالا کے ایک گھر میں نظربند کر دیا۔

ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کی گرفتاری کے بعد امرتسر میں کشیدگی بڑھ گئی۔ کاٹرا جیمل سنگھ، ہال بازار اور اچا پل کے علاقے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس دوران ایک یا دو پرتشدد واقعات بھی پیش آئے جس کے بعد پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر نے صورتحال کو سنبھالنے کے لیے جالندھر کنٹونمنٹ بورڈ سے آرمی آفیسر جنرل آر ڈائر کو بلایا تھا۔ گورو نے کہا کہ جنرل ڈائر، بھارتیوں سے متعلق سخت نظریہ رکھتا تھا۔

جلیانوالہ باغ قتل عام سے ایک روز قبل، جنرل آر ڈائر نے مسلح فوج کے ساتھ امرتسر میں مارچ کیا اور کرفیو کا اعلان کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مقامی لوگوں کو کرفیو کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ کرفیو سے لاعلم، کچھ لوگ جلیانوالہ باغ میں ایک میٹنگ کے لیے پہنچے۔ اس کے علاوہ وساکھی کی مناسبت سے متعدد لوگ خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے دور دراز علاقوں سے سری ہرمندر صاحب پہنچے تھے وہیں گوبند گڑھ پشو میلے کےلیے بھی کئی تاجر وہاں جمع ہوئے تھے۔

جلیان والا باغ میں احتجاجی جلسے کی تیاریوں شروع کی گئیں اور مائیکروفون بھی لگائے گئے تو کرفیو سے لاعلم لوگ جمع ہوگئے۔ اجلاس کا آغاز 4، 4.30 بجے شروع ہونا تھا تاہم بھاری بھیڑ کو دیکھتے ہوئے سہ پہر 3 بجے ہی جلسہ شروع ہوگیا۔ اس دوران جنرل ڈائر تمام تفصیلات سے واقفیت حاصل کررہا تھا۔

تقریباً پانچ یا سوا پانچ بجے جنرل ڈائر 25 فوجیوں کے 4 دستوں کے ہمراہ جلیان والا باغ پہنچا۔ گورکھا رجمنٹ اور افغان رجمنٹ کے 50 سپاہیوں کے ساتھ جنرل ڈائر باغ کے اندر داخل ہوا اور فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔ پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ٹھیک 5.30 بجے فائرنگ کی گئی جبکہ اس سے قبل نہ کوئی انتباہ دیا گیا، نہ لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اچانک فائرنگ شروع کردی گئی اور راست طور پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران 303 کیلیبر کے 1650 راؤنڈ فائر کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'مولانا آزاد نے مسلمانوں کو جنگ آزادی میں شریک ہونے کی تاکید کی تھی'

فائرنگ کے بعد جب کچھ لوگوں کو زخمی ہوتا اور خون میں لت پت دیکھا گیا تو بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ گولیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بھاگنے لگے۔ گراونڈ میں واقع ایک کنواں لاشوں سے بھر گیا تھا۔ ابتدائی طور پر جنرل ڈائر نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ 200 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ وہاں 5 ہزار افراد موجود تھے۔ پنجاب کے چیف سکریٹری جے پی تھامسن لکھتے ہیں کہ 291 افراد ہلاک ہوئے جن میں 211 افراد کا تعلق امرتسر شہر سے تھا۔ ہنٹر کمیٹی نے بتایا تھا اس قتل عام میں 379 افراد ہلاک ہوئے۔ 275 افراد گولیوں سے مرے جبکہ 104 لاشیں کنویں سے برآمد کی گئی۔

مدن موہن مالویہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کے مطابق 1000 لوگ اس سانحہ میں مارے گئے جبکہ کانگریس انکوائری کمیٹی نے 1200 افراد ہلاک اور دیگر 2600 زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔ وہیں سوامی شردھانند بھی جلیان والا باغ گئے اور انہوں نے کہا کہ سانحہ میں 1500 لوگ مارے گئے۔ مجموعی طور پر اعداد و شمار کے مطابق قتل عام میں ہزار تا دیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ برطانوی حکومت نے مرنے والوں کی تعداد کو بار بار بڑھاکر 379 بتایا تھا تاہم اس چیز کو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سانحہ میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔

بھارتیوں میں پائے جانے والے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے انگریز حکومت نے جنرل ڈائر کو معطل کردیا جس کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے۔ شہید ادھم سنگھ نے 13 مارچ 1940 کو لندن میں مائیکل او ڈائر کو گولی مار کر قتل عام کا بدلہ لیا۔ 1961 میں حکومت ہند نے شہید ادھم سنگھ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک یادگار تعمیر کی گئی جس کا افتتاح آزاد بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے کیا تھا۔

اگر کسی واقعہ کو ایسا لمحہ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے واضح طور پر بھارت کی آزادی کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنادیا، تو وہ 13 اپریل 1919 کا جلیان والا باغ قتل عام تھا۔ خون میں لت پت فرش اور گولیوں سے چھلنی دیواروں نے تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ آزادی کے اس 75 ویں سال کے موقع پر آئیے ہم ان بے گناہ لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو برطانوی آمریت کے ہاتھوں مارے گئے۔

جلیان والا باغ: بھارت کی آزادی کی تحریک کا ایک اہم موڑ

قتل عام سے قبل برٹش انڈیا کی شمال مغربی سرحد پر سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ 1913 کی غدر تحریک اور 1914 کے کاماگاٹا مارو واقعہ نے پنجاب کے لوگوں میں انقلاب کی لہر پیدا کی تھی جب 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو بہت سے بھارتی فوجی اس میں شامل ہوئے۔ جنگ عظیم کے دوران برٹش آرمی میں شامل 1.95 لاکھ بھارتی فوجیوں میں سے 1 لاکھ 10 ہزار فوجیوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔

پہلی بار ملک سے باہر یوروپ گئے سپاہیوں میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ ابھررہا تھا۔ انہوں نے دنیا دیکھی اور ملک کا کیا مطلب ہے، یہ جانا۔ اس دوران برطانوی خوفزدہ تھے کہ اگر یہ فوجی بغاوت پر اترآئے تو ان پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا جبکہ حکومت کے پاس اس وقت انہیں روکنے کے لیے کوئی سخت قانون بھی نہیں تھا۔ پنجاب میں بدلتے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے ایک نیا قانون بنانے کےلیے فکرمند تھے تاہم رولٹ ایکٹ کا مسودہ تیار کیا گیا۔

رولٹ ایکٹ کا مسودہ پیش ہوا تو اس قانون کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مقامی صحافت نے اس پر تفصیل سے بحث شروع کی جس کے بعد سخت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ امرتسر میں بھی شیڈول کے مطابق احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ ان تمام احتجاج کے باوجود رولٹ ایکٹ کو 18 مارچ 1919 کو منظوری دے دی گئی۔

پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں دو رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک نمایاں تھے۔ مہاتما گاندھی کو بھی مظاہروں میں شرکت کی دعوت دی گئی جبکہ وہ 2 اپریل 1919 کو پنجاب آنے والے تھے لیکن انہیں پلوال میں ہی روک دیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا جس کے بعد برطانوی حکومت نے ان دونوں رہنماؤں کو پھنسانے کا فیصلہ کیا جو مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ امرتسر کے ضلعی کمشنر، میلز ارونگ نے 10 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کو اپنے دفتر بلایاکر انہیں غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کو امرتسر سے منتقل کر کے دھرم شالا کے ایک گھر میں نظربند کر دیا۔

ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کی گرفتاری کے بعد امرتسر میں کشیدگی بڑھ گئی۔ کاٹرا جیمل سنگھ، ہال بازار اور اچا پل کے علاقے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس دوران ایک یا دو پرتشدد واقعات بھی پیش آئے جس کے بعد پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر نے صورتحال کو سنبھالنے کے لیے جالندھر کنٹونمنٹ بورڈ سے آرمی آفیسر جنرل آر ڈائر کو بلایا تھا۔ گورو نے کہا کہ جنرل ڈائر، بھارتیوں سے متعلق سخت نظریہ رکھتا تھا۔

جلیانوالہ باغ قتل عام سے ایک روز قبل، جنرل آر ڈائر نے مسلح فوج کے ساتھ امرتسر میں مارچ کیا اور کرفیو کا اعلان کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مقامی لوگوں کو کرفیو کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ کرفیو سے لاعلم، کچھ لوگ جلیانوالہ باغ میں ایک میٹنگ کے لیے پہنچے۔ اس کے علاوہ وساکھی کی مناسبت سے متعدد لوگ خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے دور دراز علاقوں سے سری ہرمندر صاحب پہنچے تھے وہیں گوبند گڑھ پشو میلے کےلیے بھی کئی تاجر وہاں جمع ہوئے تھے۔

جلیان والا باغ میں احتجاجی جلسے کی تیاریوں شروع کی گئیں اور مائیکروفون بھی لگائے گئے تو کرفیو سے لاعلم لوگ جمع ہوگئے۔ اجلاس کا آغاز 4، 4.30 بجے شروع ہونا تھا تاہم بھاری بھیڑ کو دیکھتے ہوئے سہ پہر 3 بجے ہی جلسہ شروع ہوگیا۔ اس دوران جنرل ڈائر تمام تفصیلات سے واقفیت حاصل کررہا تھا۔

تقریباً پانچ یا سوا پانچ بجے جنرل ڈائر 25 فوجیوں کے 4 دستوں کے ہمراہ جلیان والا باغ پہنچا۔ گورکھا رجمنٹ اور افغان رجمنٹ کے 50 سپاہیوں کے ساتھ جنرل ڈائر باغ کے اندر داخل ہوا اور فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔ پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ٹھیک 5.30 بجے فائرنگ کی گئی جبکہ اس سے قبل نہ کوئی انتباہ دیا گیا، نہ لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اچانک فائرنگ شروع کردی گئی اور راست طور پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران 303 کیلیبر کے 1650 راؤنڈ فائر کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'مولانا آزاد نے مسلمانوں کو جنگ آزادی میں شریک ہونے کی تاکید کی تھی'

فائرنگ کے بعد جب کچھ لوگوں کو زخمی ہوتا اور خون میں لت پت دیکھا گیا تو بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ گولیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بھاگنے لگے۔ گراونڈ میں واقع ایک کنواں لاشوں سے بھر گیا تھا۔ ابتدائی طور پر جنرل ڈائر نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ 200 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ وہاں 5 ہزار افراد موجود تھے۔ پنجاب کے چیف سکریٹری جے پی تھامسن لکھتے ہیں کہ 291 افراد ہلاک ہوئے جن میں 211 افراد کا تعلق امرتسر شہر سے تھا۔ ہنٹر کمیٹی نے بتایا تھا اس قتل عام میں 379 افراد ہلاک ہوئے۔ 275 افراد گولیوں سے مرے جبکہ 104 لاشیں کنویں سے برآمد کی گئی۔

مدن موہن مالویہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کے مطابق 1000 لوگ اس سانحہ میں مارے گئے جبکہ کانگریس انکوائری کمیٹی نے 1200 افراد ہلاک اور دیگر 2600 زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔ وہیں سوامی شردھانند بھی جلیان والا باغ گئے اور انہوں نے کہا کہ سانحہ میں 1500 لوگ مارے گئے۔ مجموعی طور پر اعداد و شمار کے مطابق قتل عام میں ہزار تا دیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ برطانوی حکومت نے مرنے والوں کی تعداد کو بار بار بڑھاکر 379 بتایا تھا تاہم اس چیز کو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سانحہ میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔

بھارتیوں میں پائے جانے والے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے انگریز حکومت نے جنرل ڈائر کو معطل کردیا جس کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے۔ شہید ادھم سنگھ نے 13 مارچ 1940 کو لندن میں مائیکل او ڈائر کو گولی مار کر قتل عام کا بدلہ لیا۔ 1961 میں حکومت ہند نے شہید ادھم سنگھ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک یادگار تعمیر کی گئی جس کا افتتاح آزاد بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے کیا تھا۔

Last Updated : Sep 4, 2021, 12:06 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.