چیف جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور وکیل اشونی اپادھیائے کی یہ مفاد عامہ کی عرضی خارج کردی۔
عدالت نے کہا کہ زبان ایک ریاست تک محدود ہوسکتی ہے، لیکن مذہب کا معاملہ پورے ملک کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ بینچ نے کہا کہ اس کے لیے وہ کوئی ہدایت جاری نہیں کرسکتی۔
اٹارنی جنرل کےکے وینوگوپال نے عرضی کی حمایت نہیں کی اور بینچ نے عرضی خارج کردی۔
واضح رہے کہ عرضی گزاروں نے آٹھ ریاستوں میں مثلاً جموں و کشمیر، پنجاب، لکشدیپ، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میگھالیہ اور منی پور میں پانچ طبقوں کو ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسیوں کو اقلیتی قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اشونی اپادھیائے نے اپنی عرضی میں قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ سنہ 1992 کی دفعہ دو (سی) کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسی قانون کے تحت 23 اکتوبر سنہ 1993 کو آرڈننس جاری کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ عرضی میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی سطح پر اقلتی درجے کا تعین نہ ہو بلکہ ریاستوں میں اس طبقے کی تعداد کے پیش نظر اصول بنانے کی ہداہت دی جائے۔
اشونی اپادھیائے نے اقلیتوں سے منسلک اس آرڈنینس کو صحت،تعلیم، رہائش جیسے بنیادی حقوق کے خلاف بتایا تھا۔
عرضی گزاروں کا کہناتھا کہ قومی سطح پر ہندو بھلے اکثریت میں ہوں لیکن آٹھ ریاستوں میں وہ اقلیتی ہیں، اس لیے انہیں اس کا درجہ دیاجانا چاہیے۔