انتخابی کمیشن نے الیکشن کیلئے13ہزار750انتخابی مراکز کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے 90ہزار پولنگ عملے کو انتخابات منعقد کرانے کیلئے تعینات کیا گیا ہے، دہلی میں مجموعی طور پر رائے دہندگان کی تعداد ایک کروڑ47لاکھ ہے۔
پہلی مرتبہ 80 برس سے زائدہ عمر کے بزرگ اور معذوروں شہریوں کو پوسٹل بیلٹ بکسوں سے رائے دہندگی کا حق دیا گیا ہے، اس بار کے انتخابات میں یہ خصوصیت ہے کہ جب تک نامزدگی کا عمل مکمل ہوتا ہے لوگ اپنے ناموں کا انداراج کراسکتے ہیں جبکہ ووٹر پرچیوں پر کیو ڈی کوڑ چسپاں کیا جائے گا۔
دہلی اسمبلی میں اب تک 6بار ہوئے انتخابات میں بی جے پی نے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی، بی جے پی نے تین مرتبہ انتخابات میں فتح کی ہیٹرک مارنے کے بعد کانگریس نے3مرتبہ شیلا دکشت کی سربراہی میں الیکشن میں جیت کے حاصل کی تھی۔ سال نومبر2012مین کیجریول کی سربراہی میں عام آدمی پارٹی کا اقتدار میں آنے سے دونوں جماعتوں کے دبائو کا خاتمہ ہوا، سنہ 2013 اور 2015 میں متواتر عام آدمی پارٹی کی جیت کے بعد دہلی کے رائے دہندگان کیلئے عام آدمی پارٹی پسندیدہ پارٹی کے طور پر ابھر گئی۔
سال2015میں ہوئے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے67نشستیں حاصل کی اور مجموعی ووٹنگ کے54.3فیصد شرح سے ووٹ حاصل کیں تاہم سال2017کے بلدیاتی انتخابات(مونسپل الیکشن) میں پارٹی کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی جبکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں صرف 18فیصد ووٹ شرح کی حصولیابی نے اس جماعت کی حریف پارٹیوں میں نئی امیدیں پیدا کر دی ہے۔
سنہ 2014کے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر نے دہلی میں تمام7نشستوں پر قبضہ جما لیا تھا، جبکہ2015اسمبلی انتخابات میں تین نشستوں پر کم اسکور نے بی جے پی کو دل برداشتہ کردیا اگر چہ بی جے پی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران نا قابل یقین کامیابی حاصل کی، تاہم اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان کے مزاج میں تبدیلی بھی نظر آئی۔کانگریس کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ انتخابی مقابلے سے ہی باہر نہ ہوجائے۔
کیجروال نے عام آدمی پارٹی کو اس نعرے سے قائم کیا ’’ہم پہلے درجے کے شہری ہیں،تاہم ہم تیسری درجے کی حکومت کے ہاتھوں مصائب کے شکار ہے‘‘انہوں نے جھاڑوں کو انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا اور یہ خیال پیش کیا کہ وہ حکومتی حلقوں و مشینری سے بدعنوانی کو صاف کریں گے جس کے ساتھ ہی انہوں نے2013کے الیکشن میں میدان مار لیا۔
کانگریس اس بات پر ششدر رہ گئی کہ ان کے کھاتے میں صرف 28نشستیں ہی آئی اور مجموعی رائے دہندگی میں 29.5فیصد کی شرح سے ہی ووٹ ملے تاہم کانگریس کی طرف سے بیرون حمایت سے کیجروال کی جماعت برسر اقتدار تو آئی تاہم جن لوک پال بل پر مرکز کے ساتھ عدم اتفاق کے بعد کیجروال نے حکومت کو ہی خیر آباد کیا۔سنہ 2015 میں لوگوں نے کیجروال کی عام آدمی پارٹی کو کافی اکثریت سے دہلی کے مسند پر بٹھایا۔
کیجروال کی فضول مشق رہی کہ پارٹی کے نقش پا کو قومی سطح پر ڈال دیا جائے جو ایک عام بات ہے جبکہ پنجاب کے علاوہ دیگر ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کا ووٹ شرح’’نوٹا‘‘ سے بھی کم تھا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی قومی سطح پر موجودگی نا کے برابر ہے۔
بی جے پی کا الزام ہے کہ عام آدمی پارٹی کے دور اقتدار میں کوئی بھی ترقی نہیں ہوئی جبکہ کانگریس کو اس بات کی شکایت کہ ہے شیلا دکشت کے زمانے میں جو ترقی کی گئی تھی وہ مستحکم نہ رہی تاہم عام آدمی پارٹی پورے اعتماد کے ساتھ اپنے اس نعرے پر’’ اچھے بتائے پانچ سال۔۔۔لگے رہو کیجروال‘‘ پر پیش رفت کر رہی ہے۔
بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران مقبول ترین اور معروف آئی پی ایس افسر کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ امیدوار نامزد کیا تاہم لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
اس جماعت کو اس بات کی امید ہے کہ اگر پہلے سے پارٹی کے 34فیصد ووٹ شرح میں مزید7 فیصد کا اضافہ کیا جائے تو پارٹی جیت درج کرسکتی ہے۔عام آدمی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے کہ دونوں جماعتیں کیجروال کا متبادل پیش کرنے میں ناکام ہیں جبکہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران انہوں نے دہلی میں جو ترقی کا جال بچھایا ہے اس سے وہ اس بار بھی میدان مار لے گے۔
سنہ 2015کے انتخابات کے دوران کانگریس اپنا کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی تھی اور مجموعی ووٹنگ میں سے9.7فیصد ووٹ شرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم اس بار انہیں بھی جیت کا یقین ہے۔
پارٹی یہ جواز دے رہی ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس دہلی میں7میں سے5 نشستوں پر اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ کیجروال حکومت کی کلیدی پہل تعلیم، صحت، بجلی، پینے کے پانی، رسل و رسائل اور خواتین کی حفاظت اس ماحول میں مقبول ترین ہوگئی ہے جبکہ اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہی ہے۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دہلی میں 1731بغیر اجازت کالنیوں کو پٹہ دیا جبکہ عام آدمی پارٹی ان کالنیوں میں بنیادی ڈھناچہ فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
اصل مقابلہ مودی کی طرف سے لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحت اور کیجروال حکومت کی کارکردگی کے درمیان ہوگی، مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حالیہ شکست کے درمیان اس بات کو دیکھنا ضرور ہوگا کہ دہلی کو دربارہ اپنے نام کرنے کیلئے بی جے پی کون سی حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔