فصل بیمہ اسکیم میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد اگر مختلف ریاستیں بھاری مالی بوجھ اٹھانے پر آمادہ نہ ہوں تو یہ اسکیم عدمِ استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔
مرکزی سرکار نے حال ہی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی)میں بھاری تبدیلیاں منظور کرکے کسانوں کو اس اسکیم کو اپنانے یا نہ اپنانے کا اختیار دیا ہے۔
اسکیم میں یہ تبدیلیاں ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے کی گئی ہیں کہ جو اسکے نفاذ کے دوران آڑھے آتی رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے فروری 2016میں شروع کردہ پی ایم ایف بی وائی کے تحت(بنکوں کے) مقروض کسانوں کیلئے بیمہ لینا لازمی ہے جبکہ فی الوقت کل کسانوں کا 58فیصد مقروض ہے۔تاہم جب سے قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے)سرکار نے بڑی چرچا میں رہ چکی یہ بیمہ اسکیم خریف2016میںشروع کی گئی،اسے کسان دوست بنانے کیلئے اس میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
گذشتہ پندرہواڑے (19فروری2020)کو مرکزی کابینہ نے ایسی ہی ایک اور مشق میں پی ایم ایف بی وائی میں مزید کئی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔
اسکیم میں دو بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں،ایک یہ کہ اسکیم کو غیر مقروض کسانوں کیلئے رضاکارانہ بنایا گیا۔
دوسرا یہ کہ غیر سیراب علاقوں اور فصلوں کیلئے 30فیصد جبکہ سیراب علاقوں کیلئے پریمئم سبسڈی کی 25فیصد حد مقرر کی گئی۔
اسکیم میں کی جاچکیں یہ دو تبدیلیاں مشترکہ طور اسکیم پر بڑا اثر ڈال سکتی ہیں لہٰذا آنے والے سیزنوں میں ان پر قریب سے نظر رکھی جانی چاہیئے۔
معروف بیمہ کمپنیوں کے ماہرین کے مطابق پی ایم ایف بی وائی کو غیر مقروض کسانوں کیلئے رضاکارانہ بنانے سے (مقروض کسانوں کیلئے یہ پہلے سے ہی رضاکارانہ ہے)اسکیم اپنانے والے کسانوں کی تعداد گھٹے گی کیونکہ صرف وہی (کسان)اسکیم اپنائیں گے کہ جنہیں نمایاں طور اپنی فصلوں کو درپیش خطرات کا ادراک ہوگا۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ اسکیم میں کی گئی ان تبدیلیوں کی وجہ سے اسکیم کے دائرے میں آنے والا علاقہ بھی گھٹ جائے گا۔ مرکزی وزارتِ زراعت کے اعلیٰ حکام ،مختصر مدت میں،پی ایم ایف بی وائی کے تحت علاقہ میں 10سے20فیصد کمی آنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بڑی توجہ اور تشہیر کے باوجود2016میں اسکیم کے آغاز سے ابھی تک فصل بیمہ اسکیم کے تحت آنے والا علاقہ 22سے30فیصد ہی بڑھ سکا ہے۔اسکے علاوہ اسکیم کے تحت درج کسانوں کی کل تعداد میںبھی خریف2020تک کمی آسکتی ہے۔
اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ خریف2016اور2018کے درمیان بیمہ اسکیم کے تحت درج کسانوں کی تعداد میں پہلے ہی تقریباََ14فیصد کمی ہوکر یہ تعداد40.4ملین سے34.80ملین رہ گئی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ اندراجات میں گراوٹ کی سب سے بڑی وجہ مختلف ریاستوں میں قرضوں کا معاف کیا جانا اور کھاتوں کو آدھار کے ساتھ جوڑا جانا ہے کہ جس سے نقلی کھاتے بند ہوچکے ہیں۔
بیمہ اسکیم کیلئے چند ہی کسانوں کے اندراج کے نتیجہ کے بطور پی ایم ایف بی وائی کا ایکٹیوریل پریمیم ربیع سیزن میں خریف سیزن کی فصلوں کیلئے گذشتہ کئی سالوں کے دوران مستقل طور 12اور14فیصد تک بڑھا ہے۔
اب سے اگر چند ہی کسان اسکیم اپناتے ہیں ،ایکٹیوریل پریمیم مزید اوپر جانے کا پابند ہے اور یہاں پرسبسڈی کی حد کے حوالے سے مرکزی سرکار کا فیصلہ کن رول ہے۔اسکے تحت کسی بھی فصل یا علاقہ کا(غیر سیراب زمین کیلئے) پریمیم 30فیصد اور سیراب زمین کیلئے 25فیصد ہے۔سبسڈی میںمرکزی سرکار کا حصہ اسی حد تک محدود ہوگا۔
مثال کے بطور،فرض کیجئے کہ کسی غیر سیراب علاقہ میںایک فصل کا ایکٹیوریل پریمیم 40فیصد آتا ہے۔اس میں کسان کا حصہ2فیصد ہے اور دیگر 38فیصد سبسڈی بحصہ برابر50:50تناسب سے ریاستوں اور مرکز میں تقسیم ہوتا ہے۔
آنے والے خریف موسم(2020)سے تاہم ایکٹیوریل پریمیم میں کسان کا حصہ 2فیصد تو رہے گا لیکن مرکزی سرکار اپنے طور سبسڈٰ کا فقط30فیصد ہی برداشت کرے گا جسکا مطلب 50:50تناسبمیں 14فیصد ہے۔
بقایا،جو اس مثال میں 24فیصد بنتا ہے،ریاست کو برداشت کرنا ہوگا اگر وہ اسکیم میں شرکت چاہتی ہو تو۔اگر کوئی ریاست یہ اضافی بوجھ نہ اٹھانا چاہے تو اسکے کسان بیمہ کے دائرے سے باہر ہوسکتے ہیں اور نقصان کی صورت میں انہیں ریاست کے ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ(ایس ڈی آر ایف)کے تحت ملنے والے معاوضہ پر انحصار کرنا ہوگا۔اس سے خود اسکیم کی صحت کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بعض سینئر حکام اس بات پر حیران ہیں کہ کیا مالی طور مشکلات کی شکار ریاستیں،جیسے آندھراپردیش،واقعی خود کو بیمہ اسکیم میں کی گئی تبدیلیوں سے پیداشدہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کر پائیں گی؟
ایس ڈی آر ایف کے تحت جو معاوضہ فصل کے نقصان پر ملتا ہے وہ اس سے کہیں کم ہے کہ جو پی ایم ایف بی وائی کے تحت ہونے والے دعویٰ پر نقصان سے دوچار ہونے والے کسان کو ملتا ہے۔زراعت،باغبانی اور سالانہ شجر کاری کی فصل کیلئے چھوٹے یا کم کھیتی والے کسانوں کو غیر سیراب علاقوں میںفی ہیکٹیئر 6800روپے اور سیراب علاقوں میں اسی رقبہ کیلئے 13500روپے کا معاوضہ ملتا ہے۔
اگر کسان کے پاس 2ہیکٹئر سے زیادہ زمین ہے تو اس صورت میں بھی اسے فقط 2ہیکٹئر کیلئے ہی معاوضہ ملے گا۔اسکے برعکس گجرات کے راجکوٹ ضلع میں خریف 2018میں کیسٹرکی فصل کیلئے فی ہیکٹئر 39000روپے،سیراب زمین میں روئی کیلئے فی ہیکٹئر58000روپے اور مونگ پھلی کیلئے فی ہیکٹئر42000روپے کی مالی اعانت تھی۔لہٰذا فصل بیمہ کی غیر موجودگی میں ایس ڈی آر ایف کے موجودہ ضوابط کے تحت کسانوں کو انتہائی قلیل معاوضہ ملے گا۔
ریاستوں کیلئے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ،کہ سبسڈی میں انہیں کم حصہ ڈالنا پڑے مگر کسان کو بہترین بیمہ بھی ملے،ایک راستہ یہ ہے کہ اگر وہ پی ایم ایف بی وائی کے تحت،بنیادی کور کے سمیت یا اسکے بغیر،ژالہ باری کو کور کرنے والا ’’سنگل پرل پروڈکٹ‘‘کہلانے والے کوئی بیمہ لیکر آئیں۔
کابینہ کے تازہ ترین فیصلے میں اس چیز کو منظوری دی جاچکی ہے۔اس طرح کا کوئی بیمہ ،عام حالات میں،مرضی مطابق رِسک کور کیلئے کم پریمیم رکھتا ہوگا۔آیا یہ پی ایم ایف بی وائی میں نئی روح پھونک سکے گا،یہ بات آںے والے وقت میں ہی معلوم ہوسکے گی جسکے لئے اس اسکیم اور اس میں کی گئی تبدیلیوں پر قریبی نگاہ رکھنا ہوگی۔