ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ہوئی حیوانیت پر ملک گیر سطح پر احتجاج جاری ہیں، ایسے میں اس کے خلاف ایک الگ ہی کہانی گڑھنا اور اس کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا بالکل بھی درست نہیں ہے۔
گذشتہ روز ہی دہلی کے سماجی کارکنان کی ایک ٹیم ہاتھرس کی بیٹی کے اہل خانہ سے ملنے پہنچی تھی، جہاں انہوں نے متاثرہ کے اہل خانہ سے بات چیت کی اور معلومات حاصل کی کہ ان پر اب تک کیا کیا گزری ہے؟
اسی سے متعلق ان سماجی کارکنان نے آج ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ، 'لڑکی کے گھر والے ابھی بھی خوف میں ہیں کیونکہ گاؤں کو پولیس چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے گاؤں میں رہنے والے بالمیکی سماج کے افراد دہشت میں ہیں۔'
ممتاز سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے بتایا کہ، 'ہم نے بچی کے اہل خانہ سے تقریباً 4 گھنٹے بات چیت کی۔ اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ لڑکی کو گذشتہ 6 ماہ سے پریشان کیا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے لڑکی نے اکیلے باہر جانا بند کر دیا تھا۔'
مزید پڑھیں:
ہاتھرس کیس: گواہوں کا تحفظ کس طرح کیا جا رہا ہے؟ سپریم کورٹ کا سوال
اس کے علاوہ شبنم ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ، 'گاؤں کے اندر پولیس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے گاؤں میں رہنے والے تمام افراد اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔'