گزشتہ دنوں آسام کے درانگ ضلع میں پولیس کے ذریعے دو مسلمانوں کے قتل کے خلاف اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ملک گیر سطح پر احتجاج کا آغاز کیا گیا ہے۔
تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد آسام پولیس کے ان اہلکاروں پر کارروائی کی جائے جنہوں نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ دو مسلمانوں کا سرِ عام قتل اور ایک لاش کی بے حرمتی، فسطائی ہندوتوادی ریاست کا ظالمانہ اور فرقہ وارانہ چہرہ ظاہر کرتی ہے۔
ایس آئی او کے قومی صدر محمد سلمان احمد نے کہا کہ 'اس طرح سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا آسام میں لوگوں کے تحفظ پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہیمنت بسوا شرما انتظامیہ منظم طریقے سے ریاست میں مسلم آبادی کے ساتھ مسلسل غیروں جیسا سلوک کر رہی ہے اور اذیت دے رہی ہے۔ اس عمل میں اس نے پولیس فورس سمیت معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو فرقہ پرست بنادیا ہے۔
سلمان احمد نے کہا کہ 'جب سے آسام میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس نے اقلیتی برادری کے زیر اثر علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو بے دخل کرنا شروع کیا ہے۔ ضلع درانگ میں بے دخل کیے گئے 900 خاندانوں کو فوری طور پر غذائی خوراک، پناہ گاہ اور قانونی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے ریاست نے ان پر ظلم و جبر کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں دو لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔
سلمان احمد نے مزید کہا کہ 'یہ ریاستی حکومت کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ درنگ ضلع اور دیگر جگہوں پر مزید بے گھر خاندانوں کی بحالی کرے۔
اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں لوگوں کو اپنے گھروں سے جبری بے دخلی اور گھروں کے انہدام سے تحفظ کو انسانی حقوق میں شمار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں بھی کہا ہے کہ مناسب رہائش بھی ایک بنیادی حق ہے اور دستور کا حق زندگی کا ایک حصہ ہے۔
انہوں کہا کہ ایس آئی او کا مطالبہ ہے کہ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے ظالمانہ حملے میں ملوث عہدیداروں اور پولیس افسران کو سزا دے کر انہیں انصاف دلایا جائے۔
تنظیم نے امید جتائی ہے کہ جوڈیشیل انکوائری کی رپورٹ جلد از جلد منظر عام پر لائی جائے۔ نیز دونوں مہلوکین کے لواحقین کو ایک ایک کروڑ روپیے اور شدید زخمیوں کو 50 لاکھ روپیے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔