دہلی کی ایک عدالت کو پراسیکیوشن کی جانب سے بتایا گیا کہ شرجیل امام نے گزشتہ برس جنوری میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مبینہ تقریر میں بھارت کی خود مختاری کو چیلنج کیا تھا اور مسلمانوں میں 'مایوسی اور عدم تحفظ کا احساس' پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
دہلی پولیس نے شرجیل امام کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124 اے، 153 اے، 505 اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جسے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تقریر کے سلسلے میں شامل کیا گیا۔ جمعرات کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے اسی معاملے کی سماعت کی۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے 22 جنوری 2020 کو آسنسول میں شرجیل امام کی تقریر پڑھتے ہوئے کہا کہ شرجیل نے اپنی تقریر میں خاص طور پر کہا تھا کہ لوگ سڑکوں پر ہیں سی اے اے یا این آر سی کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر مسائل کی وجہ سے۔
امت پرساد نے کہا کہ 'انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ سی اے اے یا این آر سی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تین طلاق اور کشمیر ہے۔ پچھلی تقریروں میں بھی واضح طور پر اشارہ کیا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے مسلمانوں کے لیے اب کوئی امید نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی پیش کیا کہ 'شرجیل نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دیگر ممالک بشمول بنگلہ دیش اور پاکستان وغیرہ بھی سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر غور کریں گے اور اس لیے وہ حکومت ہند کی بات نہیں سنیں گے۔
امت پرساد نے دلیل دی کہ 'اسی لیے وہ(شرجیل) کہتا ہے کہ یہ 5-6 ممالک کا مسئلہ ہے اور میں بھارتی حکومت کی نہیں سنوں گا۔ کیا وہ خودمختاری کو چیلنج نہیں کررہا؟ وہ کہتا ہے کہ بھارتی حکومت بھارت میں قانون نہیں بناسکتی۔' میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس نے مایوسی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی۔
پرساد نے تقریر کا وہ خاص حصہ بھی پڑھا جس میں شرجیل نے مبینہ طور پر 'حراستی کیمپ' لفظ کا استعمال کیا تھا۔
امت پرساد نے کہا کہ 'اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ تشدد پر اکسارہا ہے؟ پرساد نے اصرار کیا کہ شرجیل سی اے اے اور این آر سی پر اسی طرح کی تقاریر کرنے کے لیے جگہ جگہ گئے تھے۔
انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ دہلی فسادات گزشتہ برس 22 اور 23 جنوری کو آسنسول اور جھارکھنڈ میں ان کی تقریروں کے چار ہفتے بعد ہوئے تھے۔ پرساد نے کہا کہ 23 جنوری 2020 کو جھارکھنڈ میں اپنی تقریر میں شرجیل نے کہا تھا کہ 'لوگوں میں غصے کو استعمال کیا جانا چاہیے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شرجیل کی تقریر پر انحصار کرتے ہوئے پراسیکیوشن نے دلیل دی تھی کہ شرجیل امام نے اپنی تقریر کا آغاز 'السلام علیکم' سے کیا تھا جو کہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک خاص کمیونٹی سے مخاطب کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرجیل نے یہ کہہ کر ہجوم کو اُکسانے کی کوشش کی کہ 'اگر لوگ ناراض ہیں تو غصے کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اس کیس میں ضمانت کی درخواست پر شرجیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ تقریروں میں ایسا کچھ نہیں ہے جس میں کسی تشدد کی بات کی گئی ہو یا جس کی بنیاد پر اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ یہ تقریر علماء کے ایک گروہ کے درمیان ایک 'دانشورانہ بحث' کے حصے کے طور پر دی گئی ہے اور ان پر محض ایک نظریہ رکھنے کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا جو حکومت سے مختلف ہے۔
ایڈووکیٹ میر نے کہا تھا کہ 'تنقید کا عنصر ہمارے معاشرے میں بھی ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں تنقید مرے گی وہ معاشرہ مر جائے گا۔ اس لیے بالآخر جمہوریت میں آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عزت مآب کے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تفتیشی افسر نے شرجیل کی تقریر سے 'منتخب لائنز' لی ہیں اور اسے غیر قانونی تناظر میں پیش کیا ہے۔
خبر کے مطابق اب اس معاملے میں عدالت ہفتہ(سنیچر) کو صبح ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گی۔