پندرہ دسمبر 2019 کو دہلی کے اوکھلا اسمبلی حلقہ شاہین باغ میں کچھ مقامی خواتین کالندی کنج کی معروف قومی شاہراہ کو گھیر کر بیٹھی گئیں، یہ احتجاج جامعہ کے طلباء و طالبات پر دہلی پولیس کے ذریعہ مبینہ بربریت کے بعد شروع کیا گیا، اس مظاہرے میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن یہ مظاہرہ آج تک جاری ہے۔
شاہین باغ مظاہرے کی خواتین اپنے آپ کو شاہین کہلانا پسند کرتی ہیں جبکہ اس مظاہرہ میں چار دادیاں سامنے آئیں جو مظاہرہ کا چہرہ کہلاتی ہیں، مظاہرہ 88 ویں دن میں داخل ہورہا ہے اور اسی بیچ عالمی یوم خواتین بھی منایا جارہا ہے۔ شاہین باغ کی خاتون مظاہرین آج کے دن کو جشن کے دن کی بجائے یوم احتجاج کا دن قرار دے رہی ہیں۔
جامعہ سے اردو میں گریجویشن کر چکی شاہین ملک مظاہرہ کی نظامت کی ذمہ داری سمبھال رہی ہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہرہ کی نظامت کرتی ہیں، ہر دن مظاہرہ میں شامل ہوتی ہیں، شروعات میں اہل خانہ کی جانب سے اعتراض کیے گئے لیکن اب وہ بھی مان گئے۔
شاہین ملک کہتی ہیں کہ سنہ 2020 کا یوم خواتین شاہین باغ کی خواتین کے نام ہے کیونکہ یہاں جس طاقت سے خواتین ابھری ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
اس مظاہرہ میں ریتو نام کی ایک خاتون شامل ہیں جو گزشتہ 2 ماہ سے مظاہرہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں، جب انہیں ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ اسٹیج پر چلی آتی ہیں، ورنہ وہ خواتین کے ساتھ مجمع میں بیٹھتی ہیں، ان کی زندگی میں اس مظاہرہ کی وجہ سے کئی بدلاؤ آئے ہیں اور ان کے لیے یہ مظاہرہ بہت اہم ہے۔
اس مظاہرہ میں 4 دادیاں بہت مشہور ہوئیں، ان میں ایک دادی سروری ہے، مہینوں گزرنے کے باوجود ان کا حوصلہ ابھی بھی طاقتور ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی جاری رہے گی اور ہم سب شہریت قانون کے خلاف پوری طاقت سے لڑ رہے ہیں۔