جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں مختلف ریاستوں جیسےدہلی، مدھیہ پردیش، راجستھان ، جھارکھنڈ، گجرات ، بہار ، اترپردیش، چھتیس گڑھ اور گوا سے فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ کئی جگہوں پر ایسا دیکھا گیا کہ تہوار کے موقع پر جلوس نکالے گئے اور ان جلوسوں میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہتھیاروں بالخصوص تلواروں اور چاقوؤں کی کھلے عام نمائش کی گئی۔ Jamaat Islami on Provocation and Violence
ان جلوسوں میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور توہین آمیز جملے کسے گئے۔ بعض جگہوں پر مساجد کو نقصان پہنچانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔کہیں کہیں پر مسلمانوں کی املاک اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا،آتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات بھی انجام دیئے گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ پولیس اہلکار اور مقامی انتظامیہ کے علم میں رہتے ہوئے اور ان کی موجودگی میں ہوا۔مذہبی تہوارمنانے کی اجازت ہونی چاہئے ، مگر اسے کسی خاص طبقے کے خلاف جارحیت اور تشدد کے طور پر استعمال کرنے کے لئے قطعی نہیں ہونا چاہئے۔ان واقعات پر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی خاموشی بھی حیران کن ہے۔
انہیں اس سلسلے میں واضح بات کرنی چاہئے اور مداخلت بھی کرنی چاہئے کیونکہ پورے ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے رکھنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کچھ ریاستی حکومتیں ملک کے شہریوں کو بلا تفریق ذات ، نسل اور مذہب انہیں تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ریاستی حکومتیں اپنے ان اقدامات سے اپنے آپ کو اکثریتی طبقے کا ہمدرد ثابت کرنا چاہتی ہیں ،تاکہ وہ اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں اور متاثرین کے لئے الگ الگ پیمانے بنائے جارہے ہیں۔
ریاستی حکومتوں کے اس رویے کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بے خوف ہوکر قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور من مانی طریقے پر لوٹ مار اور آتش زنی کی وارداتیں انجام دے رہے ہیں۔کئی مقامات سے ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ پولیس ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے متاثرین کو ہی نشانہ بنارہی ہے۔ بڑی تعداد میں بے قصور مسلم نوجوانوںکی گرفتاریاں بھی ہورہی ہیں اور ان پر جھوٹے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان جگہوں پر پولیس اور انتظامیہ ، سیاست دانوں کے اشارے پر کام کررہی ہے ۔ایسے افسران یقینا ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ان وارداتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں میں اشیائے ضروریہ اور پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر ممکنہ احتجاج سے دھیان ہٹانے کے لئے حکمراں جماعت ملک کے پُر امن ماحول کو خراب کرنے پرتوجہ مرکوز کررہی ہے۔فرقہ واریت کے ان انگاروں کو جلائے رکھنے سے انہیں سیاسی فائدہ تو ہوسکتا ہے ، ان کا ووٹ بینک بھی بڑھ سکتا ہے اور ووٹرز کی توجہ بھی ان کی مایوس کن کارکردگی سے ہٹی رہ سکتی ہے لیکن آخر کار اس قسم کی فرقہ وارانہ سیاست ،ملک و قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی اور اس سے ملک کا وقار بھی مجروح ہوگا۔