حالانکہ اپوزیشن نے اس بل کو آرڈنینس کے راستے لانے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کی مستحکم کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر رمیش پوکھریال نشنک نے مرکزی تعلیمی اداروں (ٹیچروں کے کیڈر میں ریزرویشن) بل 2019 کو غور و خوض کےلئے لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے 7اپریل 2017 کے فیصلے کے بعد محکموں کو اکائی ماننے اور 13 پوائنٹ والے روسٹر سسٹم کو ناٖفذ کرنے سے ایس سی،ایس ٹی اور او بی سی کےلئے مختلف تعلیمی عہدوں پر ریزرویشن عہدوں میں کمی آرہی تھی۔
انہوں نے کہا’ایس سی ،ایس ٹی،اوبی سی کو جو انصاف دینے کی بات آئین میں کہی گئی تھی،وہ پوری نہیں ہورہی تھی۔اس لئے یہ بل لایا گیا ہے۔
نشنک نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یونیورسٹی گرانٹ کمیشن(یوجی سی) نے 21یونیورسٹیوں کا یہ مطالعہ یہ جاننے کےلئے کیا تھا کہ 13پوائنٹ والے روسٹر سسٹم اور 200پوائنٹ والے روسٹر سسٹم میں کیا فرق ہے۔یہ پایا گیا کہ 13پوائنٹ والے روسٹر سسٹم جس میں محکمے یا موضور کو اکائی مانا جاتا ہے ریزرو عہدوں کی تعداد میں 59فیصد سے 100فیصد تک کی کمی آجاتی ہے۔
اسی لئے حکومت 7مارچ 2019 کو 200 پوائنٹ والےروسٹر نظام کو دوبارہ نافذ کرنے کےلئے آرڈنینس لائی تھی تاکہ اعلی تعلیمی اداروں میں خالی اسامیوں پر جلد از جلد بھرتی شروع کی جاسکے۔اس وقت اعلی تعلیم میں تقریباً سات ہزار عہدے خالی تھے اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی تھیں۔
مرکزی وزیر نے کہاکہ بل میں اقتصادی طورپر پسماندہ کنبوں کےلئے بھی 10فیصد ریزرویشن کا انتظام کیاگیا ہے جو آرڈنینس میں نہیں تھا۔
کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ وہ بل کی اصل روح کی حمایت کرتے ہیں،لیکن اسے آرڈنینس کے راستے لانے کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ پیچیدہ معاملہ ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف حکومت اور یوجی سی سپریم کورٹ گئے تھے،لیکن سپریم کورٹ نے بھی محکمے کو اکائی ماننے کے حق میں فیصلہ کیاتھا۔اس سلسلے میں نظر ثانی پٹیشن بھی خارج ہوچکی ہے۔اس لئے ،حکومت کو جلد بازی میں بل پاس کرانے کی جگہ اسے پارلیمنٹ کی مستحکم کمیٹی کے پاس بھیجنا چاہئے جہاں اس کا پورا جائزہ لیا جائےگا۔