ETV Bharat / state

Love Jihad Law: لو جہاد قانون پر گجرات حکومت کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا - لو جہاد ایکٹ

بھارتی آئین میں اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہے، لیکن حال میں چند ریاستی سرکاروں نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ جمعیت علماء ہند، ملک کے آئین کی تعمیر کرنے والی جماعت ہے، اس لیے وہ ہر دور میں اس کی حفاظت کرے گی۔ جمعیت علماء ہند (گجرات یونٹ) کی عرضی پر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کے ساتھ زبردستی یا دھوکہ ہوا ہے، تب تک لو جہاد ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔ SC Refuses To Vacate Gujarat HC Stay Order On Love Jihad Law

لو جہاد قانون پر گجرات حکومت کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا
لو جہاد قانون پر گجرات حکومت کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا
author img

By

Published : Feb 15, 2022, 8:56 PM IST

سپریم کورٹ Supreme Court سے 'لو جہاد ایکٹ' پر راحت کی امید کر رہی گجرات حکومت کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ جسٹس عبدالنظیر، اور جسٹس کرشنا مراری کی بنچ نے گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ اس قانون کی بعض شقوں پر عائد کردہ پابندی کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔

گجرات سرکار کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں جمعیت علماء ہند کے وکیل کپل سبل اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد موجود تھے، جمعیت علماء ہند کے وکیل نے ہائی کورٹ کے اسٹے کو درست قرار دیا اور کہا کہ شخصی اور مذہبی آزادی آئین ہند کی بنیادی روح ہے، اس کے بغیر ملک کا آئین اپنا وجود کھو دے گا۔ گجرات سرکار کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اپنا موقف رکھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں گجرات ہائی کورٹ کے دو جج جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو نے لو جہاد مخالف قانون کو لے کر ایک اہم فیصلہ سنایا تھا۔

ہائی کورٹ نے لو جہاد ایکٹ کی بعض دفعہ کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیت علماء گجرات ودیگر کی عرضی پر دیا تھا۔

جمعیت نے اس قانون پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، گجرات حکومت نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیے 15 جون 2021 کو 'گجرات مذہبی آزادی (ترمیمی) ایکٹ 2021' نافذ کیا تھا۔

اپنے فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ میں پھنسایا گیا ہے، تب تک ’لو جہاد ایکٹ‘ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

ہائی کورٹ نے لوجہاد قانون کی اہم دفعات (3، 4، 5 اور 6) پر روک لگا دی تھی۔ گجرات سرکار نے اپنی نظرثانی درخواست میں اس پر کہا تھا کہ کم از کم دفعہ 5 پر اسٹے ہٹا دیا جائے جسے ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا، اس قانون کے تحت تبدیلیٔ مذہب کے لیے مجسٹریٹ کی اجازت ضروری قرار دی گئی تھی، لیکن ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ شادی کے لیے کسی کی اجازت ضروری نہیں۔

گجرات ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ اس قانون کی دفعات ان لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتی جنہوں نے بین المذاہب شادی میں زبردستی یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا۔

عدالت نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ میں پھنسایا گیا ہے، تب تک کسی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔

عدالت کے آج کے فیصلے پر جمعیت علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اصل لڑائی آئین میں حاصل شخصی و مذہبی آزادی کی بقا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین میں اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہے، لیکن حال میں چند ریاستی سرکاروں نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ جمعیت علماء ہند، ملک کے آئین کی تعمیر کرنے والی جماعت ہے، اس لیے وہ ہر دور میں اس کی حفاظت کرے گی۔

مولانا مدنی نے اس موقع پر جمعیت علماء گجرات کے ناظم اعلی پروفیسر نثار احمد انصاری اور اس مقدمہ سے جڑے ہوئے وکلاء کو مبارک باد دی کہ وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ Supreme Court سے 'لو جہاد ایکٹ' پر راحت کی امید کر رہی گجرات حکومت کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ جسٹس عبدالنظیر، اور جسٹس کرشنا مراری کی بنچ نے گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ اس قانون کی بعض شقوں پر عائد کردہ پابندی کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔

گجرات سرکار کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں جمعیت علماء ہند کے وکیل کپل سبل اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد موجود تھے، جمعیت علماء ہند کے وکیل نے ہائی کورٹ کے اسٹے کو درست قرار دیا اور کہا کہ شخصی اور مذہبی آزادی آئین ہند کی بنیادی روح ہے، اس کے بغیر ملک کا آئین اپنا وجود کھو دے گا۔ گجرات سرکار کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اپنا موقف رکھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں گجرات ہائی کورٹ کے دو جج جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو نے لو جہاد مخالف قانون کو لے کر ایک اہم فیصلہ سنایا تھا۔

ہائی کورٹ نے لو جہاد ایکٹ کی بعض دفعہ کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیت علماء گجرات ودیگر کی عرضی پر دیا تھا۔

جمعیت نے اس قانون پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، گجرات حکومت نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیے 15 جون 2021 کو 'گجرات مذہبی آزادی (ترمیمی) ایکٹ 2021' نافذ کیا تھا۔

اپنے فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ میں پھنسایا گیا ہے، تب تک ’لو جہاد ایکٹ‘ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

ہائی کورٹ نے لوجہاد قانون کی اہم دفعات (3، 4، 5 اور 6) پر روک لگا دی تھی۔ گجرات سرکار نے اپنی نظرثانی درخواست میں اس پر کہا تھا کہ کم از کم دفعہ 5 پر اسٹے ہٹا دیا جائے جسے ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا، اس قانون کے تحت تبدیلیٔ مذہب کے لیے مجسٹریٹ کی اجازت ضروری قرار دی گئی تھی، لیکن ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ شادی کے لیے کسی کی اجازت ضروری نہیں۔

گجرات ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ اس قانون کی دفعات ان لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتی جنہوں نے بین المذاہب شادی میں زبردستی یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا۔

عدالت نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ میں پھنسایا گیا ہے، تب تک کسی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔

عدالت کے آج کے فیصلے پر جمعیت علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اصل لڑائی آئین میں حاصل شخصی و مذہبی آزادی کی بقا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین میں اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہے، لیکن حال میں چند ریاستی سرکاروں نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ جمعیت علماء ہند، ملک کے آئین کی تعمیر کرنے والی جماعت ہے، اس لیے وہ ہر دور میں اس کی حفاظت کرے گی۔

مولانا مدنی نے اس موقع پر جمعیت علماء گجرات کے ناظم اعلی پروفیسر نثار احمد انصاری اور اس مقدمہ سے جڑے ہوئے وکلاء کو مبارک باد دی کہ وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.