ETV Bharat / state

لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں: سپریم کورٹ

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 12, 2024, 7:59 AM IST

Updated : Jan 12, 2024, 8:47 AM IST

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سات ججوں کی بنچ نے جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ معاملے میں سماعت کی۔ سماعت کے دوران بنچ نے تبصرہ کیا کہ اے ایم یو اقلیتی ٹیگ کے بغیر قومی اہمیت کا ایک ادارہ بنا ہوا ہے اور یہ صرف برانڈ نام ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے سمت سکسینہ کی رپورٹ

Etv Bharat
Etv Bharat

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ معاملے پر سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ 'پچھلے سو برسوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اقلیتی ٹیگ کے بغیر قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ یہ صرف برانڈ کا نام ہے۔' اس معاملے کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سات ججوں پر مشتمل ہے۔ اس بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتہ، منوج مشرا اور ستیش چندر شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کے اقلیتی درجہ کے معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔

جسٹس دتہ نے درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شادان فراست سے پوچھا، "پچھلے سو برسوں میں اقلیتی ادارے کے ٹیگ کے بغیر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ہم باشا (Basha) پر آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟ قابل ذکر ہے کہ 1967 میں، ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی تھی، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب پارلیمنٹ نے 1981 میں اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا تو یونیورسٹی کو اپنی اقلیتی حیثیت واپس مل گئی۔

جسٹس دتا نے مزید استفسار کیا کہ 'اقلیتی ٹیگ کے بغیر کس طرح سے کوئی بڑا نقصان ہوگا؟ ادارہ (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف برانڈ کا نام ہے۔' ایڈوکیٹ شادان فراست نے کہا کہ "باشا تک، یہ اقلیتی ادارہ سمجھا جاتا تھا… آج، 1981 کی ترمیم پر 'لارڈ شپ کے اسٹیٹس کو' حکم کی وجہ سے یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے۔ اگر 'لارڈ شپ' باشا فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں تو پہلی بار واضح طور پر یہ ایک غیر اقلیتی ادارہ بن جائے گا۔" ایڈوکیٹ فراست نے کہا کہ مسلم طالبات کو خاص طور پر اقلیتی درجے کی وجہ سے اے ایم یو میں بھیجا جاتا ہے اور اس پر زور دیا کہ یہ ایک سماجی حققت ہے۔

جسٹس شرما نے استفسار کیا کہ کیا بھارت میں کوئی اور اقلیتی یونیورسٹی ہے جسے مرکز کی طرف سے سو فیصد فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو کافی حد تک مرکز کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور اس میں اور بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔'

دن بھر کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس آف انڈیا نے زبانی طور پر تبصرہ کیا کہ "آرٹیکل 30 کا مقصد یہ نہیں ہے، اگر میں کہوں تو اسے (آرٹیکل 30) کو اقلیتوں کا گھٹو بنانے یعنی انہیں ایک جگہ جمع کرنے کے لیے مت استعمال کریں..."، انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دوسرے لوگوں کو انتظامیہ سے وابستہ ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس سے اقلیتی ادارے کے طور پر آپ کے کردار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔'

مزید پڑھیں: اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت

بنچ نے آرٹیکل 30 (1) میں استعمال ہونے والے لفظ "انتخاب" پر زور دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ اقلیتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یا تو انسٹی ٹیوٹ کا خود انتظام کریں یا دوسروں سے کروائیں۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ "آرٹیکل 30 یہ حکم نہیں دیتا ہے کہ انتظامیہ خود اقلیت کے پاس ہو۔ آرٹیکل 30 جس چیز پر غور کرتا ہے اور اسے تسلیم کرتا ہے وہ حق ہے، بنیادی طور پر انتخاب کا حق، اقلیتوں کو اس طریقے سے انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جسے وہ مناسب سمجھیں۔"

سی جے آئی نے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل سے استفسار کیا کہ "آپ کی دلیل یہ ہے، جس پر ہم الگ سے سنیں گے، اگر آپ ایکسپریشن ایڈمنسٹر کو بہت سخت معنوں میں لاگو کرتے ہیں، یعنی انتظامیہ میں کوئی باہر والا نہیں ہونا چاہیے یا اسے اس بنیاد کو استثنیٰ دیں کہ 180 میں سے صرف 37 ہوں تو اقلیت کبھی بھی یونیورسٹی نہیں چلا سکتی۔"

یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

سبل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا، "نہیں، درحقیقت یہ اس عدالت کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس عدالت نے کہا تھا کہ آپ کوئی بھی سیکولر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں... سینٹ سٹیفنز میں ایک وقت میں صرف 6 فیصد اقلیتی طلبہ تھے، جو بڑھ کر کسی وقت میں 14 فیصد ہوئے.... اور ٹی ایم اے پائی معاملے میں اس عدالت نے کہا کہ یہ 50 فیصد تک جا سکتا ہے..."۔

سبل نے کہا کہ وہ دہلی کے سینٹ سٹیفن کالج کی گورننگ باڈی کا حصہ تھے اور گورننگ باڈی کے زیادہ تر ارکان غیر اقلیتی لوگ تھے۔ سبل نے زور دیا کہ اقلیتوں کو تمام پہلوؤں سے نمٹنے میں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور انہیں دوسروں کو شامل کرنا پڑ سکتا ہے۔ سبل نے مزید کہا کہ کچھ تکنیکی شعبوں میں ہو سکتا ہے کہ ادارے کے پاس علم نہ ہو، خاص طور پر میڈیکل کالج میں اور پھر ہم باہر سے لوگوں کو مدد کے لیے لاتے ہیں اور وہ اکثریت میں سے ہو سکتے ہیں اور "اس سے ادارے کا اقلیتی کردار مسخ نہیں ہوتا"۔

مزید پڑھیں: AMUTA اے ایم یو کی صورتحال پر اساتذہ نے کیا تشویش کا اظہار

سی جے آئی نے کہا، "ایک عنصر پر غور کرنا ہے کہ خود قانون کے ذریعہ، آپ کو اپنے مرکز میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو شامل کرنا پڑے جو اقلیت نہیں ہیں... تو کیا اس سے کوئی تبدیلی آتی ہے؟" سبل نے کہا، "میں اسے چیلنج کر سکتا ہوں..."۔ بدھ کو سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے یونیورسٹی سے کہا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کے اقلیتی کردار کا جواز پیش کرے جب کہ اس کی 180 رکنی گورننگ کونسل میں صرف 37 مسلم ارکان تھے۔ سپریم کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت اب 23 جنوری کو کرے گا۔

ایک آئینی بنچ اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے، جہاں وہ اس سوال پر فیصلہ کرے گی کہ آیا پارلیمانی قانون کے تحت بنائے گئے تعلیمی ادارے کو آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ حاصل ہے۔ 2005 میں، اے ایم یو نے اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورسز میں 50 فیصد نشستیں مسلم امیدواروں کے لیے محفوظ کی تھیں، جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ 2006 میں، مرکز اور اے ایم یو نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 2016 میں، مرکز نے اس اپیل سے دستبرداری اختیار کی کہ وہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 12 فروری 2019 کو اے ایم یو کے اقلیتی درجے کے متنازع معاملے سات ججوں کی بنچ کے حوالے کیا تھا۔ اس سے پہلے 1981 میں بھی اس معاملے پر سماعت ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

AMU Acting VC اے ایم یو کارگزار وائس چانسلر نے اپنی بیوی کو وائس چانسلر بنانے کے لیے ووٹ کیوں دیا؟

Former AMU Student Murad Injured اے ایم یو کے سابق طالب علم مراد اسرائیلی حملے میں زخمی

Israel-Palestine Conflict علی گڑھ میں فلسطین کے حق میں احتجاج

National commission of minorities Visit AMU قومی اقلیتی کمیشن کی رکن نے اے ایم یو کا دورہ کیا

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ معاملے پر سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ 'پچھلے سو برسوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اقلیتی ٹیگ کے بغیر قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ یہ صرف برانڈ کا نام ہے۔' اس معاملے کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سات ججوں پر مشتمل ہے۔ اس بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتہ، منوج مشرا اور ستیش چندر شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کے اقلیتی درجہ کے معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔

جسٹس دتہ نے درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شادان فراست سے پوچھا، "پچھلے سو برسوں میں اقلیتی ادارے کے ٹیگ کے بغیر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ہم باشا (Basha) پر آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟ قابل ذکر ہے کہ 1967 میں، ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی تھی، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب پارلیمنٹ نے 1981 میں اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا تو یونیورسٹی کو اپنی اقلیتی حیثیت واپس مل گئی۔

جسٹس دتا نے مزید استفسار کیا کہ 'اقلیتی ٹیگ کے بغیر کس طرح سے کوئی بڑا نقصان ہوگا؟ ادارہ (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف برانڈ کا نام ہے۔' ایڈوکیٹ شادان فراست نے کہا کہ "باشا تک، یہ اقلیتی ادارہ سمجھا جاتا تھا… آج، 1981 کی ترمیم پر 'لارڈ شپ کے اسٹیٹس کو' حکم کی وجہ سے یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے۔ اگر 'لارڈ شپ' باشا فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں تو پہلی بار واضح طور پر یہ ایک غیر اقلیتی ادارہ بن جائے گا۔" ایڈوکیٹ فراست نے کہا کہ مسلم طالبات کو خاص طور پر اقلیتی درجے کی وجہ سے اے ایم یو میں بھیجا جاتا ہے اور اس پر زور دیا کہ یہ ایک سماجی حققت ہے۔

جسٹس شرما نے استفسار کیا کہ کیا بھارت میں کوئی اور اقلیتی یونیورسٹی ہے جسے مرکز کی طرف سے سو فیصد فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو کافی حد تک مرکز کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور اس میں اور بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔'

دن بھر کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس آف انڈیا نے زبانی طور پر تبصرہ کیا کہ "آرٹیکل 30 کا مقصد یہ نہیں ہے، اگر میں کہوں تو اسے (آرٹیکل 30) کو اقلیتوں کا گھٹو بنانے یعنی انہیں ایک جگہ جمع کرنے کے لیے مت استعمال کریں..."، انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دوسرے لوگوں کو انتظامیہ سے وابستہ ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس سے اقلیتی ادارے کے طور پر آپ کے کردار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔'

مزید پڑھیں: اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت

بنچ نے آرٹیکل 30 (1) میں استعمال ہونے والے لفظ "انتخاب" پر زور دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ اقلیتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یا تو انسٹی ٹیوٹ کا خود انتظام کریں یا دوسروں سے کروائیں۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ "آرٹیکل 30 یہ حکم نہیں دیتا ہے کہ انتظامیہ خود اقلیت کے پاس ہو۔ آرٹیکل 30 جس چیز پر غور کرتا ہے اور اسے تسلیم کرتا ہے وہ حق ہے، بنیادی طور پر انتخاب کا حق، اقلیتوں کو اس طریقے سے انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جسے وہ مناسب سمجھیں۔"

سی جے آئی نے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل سے استفسار کیا کہ "آپ کی دلیل یہ ہے، جس پر ہم الگ سے سنیں گے، اگر آپ ایکسپریشن ایڈمنسٹر کو بہت سخت معنوں میں لاگو کرتے ہیں، یعنی انتظامیہ میں کوئی باہر والا نہیں ہونا چاہیے یا اسے اس بنیاد کو استثنیٰ دیں کہ 180 میں سے صرف 37 ہوں تو اقلیت کبھی بھی یونیورسٹی نہیں چلا سکتی۔"

یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

سبل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا، "نہیں، درحقیقت یہ اس عدالت کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس عدالت نے کہا تھا کہ آپ کوئی بھی سیکولر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں... سینٹ سٹیفنز میں ایک وقت میں صرف 6 فیصد اقلیتی طلبہ تھے، جو بڑھ کر کسی وقت میں 14 فیصد ہوئے.... اور ٹی ایم اے پائی معاملے میں اس عدالت نے کہا کہ یہ 50 فیصد تک جا سکتا ہے..."۔

سبل نے کہا کہ وہ دہلی کے سینٹ سٹیفن کالج کی گورننگ باڈی کا حصہ تھے اور گورننگ باڈی کے زیادہ تر ارکان غیر اقلیتی لوگ تھے۔ سبل نے زور دیا کہ اقلیتوں کو تمام پہلوؤں سے نمٹنے میں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور انہیں دوسروں کو شامل کرنا پڑ سکتا ہے۔ سبل نے مزید کہا کہ کچھ تکنیکی شعبوں میں ہو سکتا ہے کہ ادارے کے پاس علم نہ ہو، خاص طور پر میڈیکل کالج میں اور پھر ہم باہر سے لوگوں کو مدد کے لیے لاتے ہیں اور وہ اکثریت میں سے ہو سکتے ہیں اور "اس سے ادارے کا اقلیتی کردار مسخ نہیں ہوتا"۔

مزید پڑھیں: AMUTA اے ایم یو کی صورتحال پر اساتذہ نے کیا تشویش کا اظہار

سی جے آئی نے کہا، "ایک عنصر پر غور کرنا ہے کہ خود قانون کے ذریعہ، آپ کو اپنے مرکز میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو شامل کرنا پڑے جو اقلیت نہیں ہیں... تو کیا اس سے کوئی تبدیلی آتی ہے؟" سبل نے کہا، "میں اسے چیلنج کر سکتا ہوں..."۔ بدھ کو سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے یونیورسٹی سے کہا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کے اقلیتی کردار کا جواز پیش کرے جب کہ اس کی 180 رکنی گورننگ کونسل میں صرف 37 مسلم ارکان تھے۔ سپریم کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت اب 23 جنوری کو کرے گا۔

ایک آئینی بنچ اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے، جہاں وہ اس سوال پر فیصلہ کرے گی کہ آیا پارلیمانی قانون کے تحت بنائے گئے تعلیمی ادارے کو آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ حاصل ہے۔ 2005 میں، اے ایم یو نے اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورسز میں 50 فیصد نشستیں مسلم امیدواروں کے لیے محفوظ کی تھیں، جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ 2006 میں، مرکز اور اے ایم یو نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 2016 میں، مرکز نے اس اپیل سے دستبرداری اختیار کی کہ وہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 12 فروری 2019 کو اے ایم یو کے اقلیتی درجے کے متنازع معاملے سات ججوں کی بنچ کے حوالے کیا تھا۔ اس سے پہلے 1981 میں بھی اس معاملے پر سماعت ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

AMU Acting VC اے ایم یو کارگزار وائس چانسلر نے اپنی بیوی کو وائس چانسلر بنانے کے لیے ووٹ کیوں دیا؟

Former AMU Student Murad Injured اے ایم یو کے سابق طالب علم مراد اسرائیلی حملے میں زخمی

Israel-Palestine Conflict علی گڑھ میں فلسطین کے حق میں احتجاج

National commission of minorities Visit AMU قومی اقلیتی کمیشن کی رکن نے اے ایم یو کا دورہ کیا

Last Updated : Jan 12, 2024, 8:47 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.