سپریم کورٹ نے جمعرات کو یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر جیسے ویب پورٹلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے جعلی خبریں پھیلائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اس طرح کے سوشل میڈیا ججوں کو جواب بھی نہیں دیتے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ اس طرح کے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم صرف طاقتور لوگوں کو سنتے ہیں اور عدالتی اداروں کے سامنے کوئی جوابدہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ متعدد بار ایسے پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے جس سے ملک کا نام بدنام ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا "اگر آپ یوٹیوب پر جاتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کتنی جعلی خبریں ہیں۔ ویب پورٹل کسی بھی چیز سے کنٹرول نہیں ہوتے۔ خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوتی ہے اور یہی مسئلہ ہے۔
عدالت جمعیت علماء ہند اور پیس پارٹی کی طرف سے ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی جو کہ مارچ 2020 میں دہلی کے نظام الدین میں ہونے والی تبلیغی جماعت کے ساتھ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو جوڑ کر میڈیا اداروں کو مبینہ طور پر جعلی خبریں پھیلانے سے روکنے کے لئے دائر کی گئی تھی۔
سالیسیٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نئے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی قوانین کے تحت یہی خیال رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ مرکز کی جانب سے مختلف ہائی کورٹس کے زیر التوا آئی ٹی قوانین کے چیلنجز کے بارے میں دائر کی گئی ایک منتقلی کی درخواست چیف جسٹس کی عدالت کے سامنے رکھی جائے۔
انہوں نے کہا کہ "برائے مہربانی منتقلی کی درخواست کو سامنے رکھیں جو کہ آئی ٹی قوانین سے متعلق ہے۔ مختلف ہائی کورٹس مختلف احکامات جاری کر رہی ہیں۔ بہتر ہے کہ اس معاملے پر کوئی ایک ہی جج مینٹ پاس کیا جائے کیونکہ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: متعصب میڈیا کے خلاف جمعیۃ کی اہم پٹیشن پر حتمی بحث جلد
چیف جسٹس نے اتفاق کیا اور جمعیت علماء ہند اور پیس پارٹی کی جانب سے موجودہ کیس کے ساتھ منتقلی کی درخواست درج کرنے کی بات کہی۔
اس معاملے کی چھ ہفتوں کے بعد دوبارہ سماعت ہوگی۔