ETV Bharat / state

گاوں کی عدالتیں غریب عوام کو بڑی راحت پہنچا سکتی ہیں - رچابندا

بھارت کا عدالتی نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ مدعی قانونی لڑائی لڑنے کے دوران اپنی ساری آمدنی تک کھو دیتا ہے۔70 فیصد دیہی آبادی، جس میں سے نصف پسماندہ ہے، اس ملک میں حصولِ انصاف ایک سراب کی طرح ہے۔

گاوں کی عدالتیں غریب عوام کو بڑی راحت پہنچاسکتی ہیں
گاوں کی عدالتیں غریب عوام کو بڑی راحت پہنچاسکتی ہیں
author img

By

Published : Feb 13, 2020, 10:17 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 4:37 AM IST

مہاتما گاندھی کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ بھارت کی خوشحالی کی شاہ کلید اسکے دیہی علاقوں کی ترقی میں ہے۔البتہ ملک کی آزادی کی سات دہائیوں کے دوران عدم مرکزیت کی روح تک کہیں نظر نہیں آئی ہے۔حالانکہ دیہی عوام کو فوری انصاف فراہم کرانے کی خاطر گرام نیالے ایکٹ 2009متعارف کرایا تو گیا ہے لیکن اسکے نفاذ میں سُستی ہے۔

نیشنل پروڈکٹیویٹی کونسل کے مطابق فقط 11ریاستوں نے ہی سنہ 2009اور سنہ 2018کے دوران دیہی عدالتوں میں تقرریوں کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں ۔'نیشنل فیڈریشن آف سوسائٹیز فار فاسٹ جسٹس' نے گذشتہ سال مفادِ عامہ کی ایک عرضی داخل کی تھی اور اس جانب توجہ دلائی تھی کہ مجوزہ 320 دیہی عدالتوں میں سے فقط 204ہی کام کرنے کی حالت میں ہیں۔

سپریم کورٹ ٹربیونل نے دیہی عدالتوں کے خلاف دائر مقدمے کے ایک حصے کے طور پر متعدد ہدایت جاری کی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ غریب دیہی عوام موجودہ عدالتی نظام کا شکار بن رہی ہیں اور یہ عدالتیں آئین کے آرٹیکل 39 اے کے موافق نہیں ہے۔

جسٹس این وی رامانا، سنجیو کھنہ اور کرشنا موراری پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے ایک ہدایت یہ بھی دی تھی کہ جن ریاستوں نے ابھی تک دیہی عدالتوں کے قیام کے اقدامات نہیں کیے ہیں انہیں چار ہفتوں کے وقت کے اندر لازمی نوٹیفکیشن جاری کردینے چاہیئں۔

اس بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ متعلقہ ریاستوں کے چیف جسٹس ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشورہ کرکے دیہی عدالتوں کا قیام اور انکے لیے ملازمین کی بھرتی کا عمل تیز کرائیں۔سابق ہدایات کے مطابق اعلیٰ عدالت نے چھتیس گڑھ، گجرات، تلنگانا، مغربی بنگال، اُتراکھنڈ اور اُڑیسہ کی جانب سے بیاناتِ حلفی پیش نہ کیے جانے کو ایک سنگین جرم کے بطور لیا۔چناچہ عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں بڑی سنجیدگی دکھائی ہے، اس سے دیہی علاقوں میں نظامِ انصاف قائم ہونے کے حوالے سے امید کی کرن نظر آئی۔

بھارت میں گاؤں اور اس کے قوانین کا تصور پُرانا ہے۔گاؤں کے بزرگوں کے ذریعہ 'رچابندا'یا تنازعات کا حل نکالنے کے عمل کو یہاں ایک قانونی عمل سمجھا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے گاؤں والے سرکاری عدالتوں میں جانے سے ہچکچاتے ہیں۔

چالیس سال قبل گاؤں کے عوام کو انصاف دلانے کے مقصد سے 30 ہزار قانونی پینل تشکیل کیے گئے اور تیس سال قبل جب این ٹی راما راؤ کی حکومت نے اسمبلی میں منڈل پرجا پریشد کا قانون لایا تھا، اس وقت کی کانگریس حکومت نے اسکے خلاف ووٹ دیا تھا۔حالانکہ راما راؤ نے سنہ 1995 میں اس قانون کو منظور تو کروایا لیکن یہ ایک سال کے اندر ہی رد ہوگیا۔

منموہن سنگھ کی حکومت نے آبادی کے سبھی طبقوں کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے دیہی عدالتوں کا تصور متعارف کرایا تھا۔حالانکہ پہلے مرحلے پر 5 ہزار دیہی عدالتوں کے قیام کی اطلاعات تھی لیکن آندھراپردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ وائی ایس ریڈی نے اسکے خلاف فیصلہ لیا۔

بالآخر آندھرا پردیش میں 82 اور تلنگانہ میں55دیہی عدالتیں قائم تو ہوگئی ہیں لیکن اس سلسلے میں مزید کوئی بہتری ہوتے نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ح اگر عدالتی نظام کی اس عدم مرکزیت کے منصوبے کو صحیح سمت میں آگے بڑھایا جائے تو دیہی آبادی کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

جولائی 2019میں سپریم کورٹ نے سنہ 1979میں دودھ میں ملاوٹ سے متعلق ایک مقدمہ کو خارج کردیا جو مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر ہونے کے بعد،سیشن کورٹ اور پھر ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ میں پہنچا تھا۔اس طرح یہ مقدمہ چار دہائیوں تک مختلف عدالتوں میں گھسیٹا جاتا رہا ہے تاہم یہ اس طرح کا کوئی پہلا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ماتحت عدالتوں میں عملہ کی شدید قلت کی وجہ سے اس طرح کے ہزاروں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔

بھارت کا عدالتی نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ مدعی قانونی لڑائی لڑنے کے دوران اپنی ساری آمدنی تک کھودیتا ہے۔70فیصد دیہی آبادی، جس میں سے نصف پسماندہ ہے، اس ملک میں حصولِ انصاف ایک سراب کی طرح ہے۔

قانون کہتا ہے کہ قانونی اصولوں کے مطابق کام کرنے والی عدالتوں کو ثبوت کے قاعدہ کی تعمیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ سیول مقدمات کو چھ ماہ کے اندر نپٹایا جاسکتا ہے۔

لاءکمیشن نے سنہ 1986کی اپنی رپورٹ میں درج کیا تھا کہ دائرہ اختیار کے مطابق عدالتوں کا قیام اعلیٰ عدالتوں پر پڑ رہے بوجھ کو کافی حد تک کم کرسکتا ہے اور اگر ملک بھر میں قریب 50 ہزار بلاکوں میں عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا تو اس سے دیہی و شہری غریب عوام کو بڑی راحت مل سکتی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ نے اس دلیل کو بھی برقرار رکھا تھا کہ عدالتوں کے قیام اور انہیں بنائے رکھنے کے اخراجات پر نظرِ ثانی کی جانی چاہیئے تاکہ مرکزی اور متعلقہ ریاستی حکومتیں مشترکہ طور پر یہ اخراجات اٹھائیں۔چونکہ حقِ انصاف ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کا خیرمقدم کیا جانا چاہیئے۔

مہاتما گاندھی کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ بھارت کی خوشحالی کی شاہ کلید اسکے دیہی علاقوں کی ترقی میں ہے۔البتہ ملک کی آزادی کی سات دہائیوں کے دوران عدم مرکزیت کی روح تک کہیں نظر نہیں آئی ہے۔حالانکہ دیہی عوام کو فوری انصاف فراہم کرانے کی خاطر گرام نیالے ایکٹ 2009متعارف کرایا تو گیا ہے لیکن اسکے نفاذ میں سُستی ہے۔

نیشنل پروڈکٹیویٹی کونسل کے مطابق فقط 11ریاستوں نے ہی سنہ 2009اور سنہ 2018کے دوران دیہی عدالتوں میں تقرریوں کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں ۔'نیشنل فیڈریشن آف سوسائٹیز فار فاسٹ جسٹس' نے گذشتہ سال مفادِ عامہ کی ایک عرضی داخل کی تھی اور اس جانب توجہ دلائی تھی کہ مجوزہ 320 دیہی عدالتوں میں سے فقط 204ہی کام کرنے کی حالت میں ہیں۔

سپریم کورٹ ٹربیونل نے دیہی عدالتوں کے خلاف دائر مقدمے کے ایک حصے کے طور پر متعدد ہدایت جاری کی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ غریب دیہی عوام موجودہ عدالتی نظام کا شکار بن رہی ہیں اور یہ عدالتیں آئین کے آرٹیکل 39 اے کے موافق نہیں ہے۔

جسٹس این وی رامانا، سنجیو کھنہ اور کرشنا موراری پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے ایک ہدایت یہ بھی دی تھی کہ جن ریاستوں نے ابھی تک دیہی عدالتوں کے قیام کے اقدامات نہیں کیے ہیں انہیں چار ہفتوں کے وقت کے اندر لازمی نوٹیفکیشن جاری کردینے چاہیئں۔

اس بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ متعلقہ ریاستوں کے چیف جسٹس ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشورہ کرکے دیہی عدالتوں کا قیام اور انکے لیے ملازمین کی بھرتی کا عمل تیز کرائیں۔سابق ہدایات کے مطابق اعلیٰ عدالت نے چھتیس گڑھ، گجرات، تلنگانا، مغربی بنگال، اُتراکھنڈ اور اُڑیسہ کی جانب سے بیاناتِ حلفی پیش نہ کیے جانے کو ایک سنگین جرم کے بطور لیا۔چناچہ عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں بڑی سنجیدگی دکھائی ہے، اس سے دیہی علاقوں میں نظامِ انصاف قائم ہونے کے حوالے سے امید کی کرن نظر آئی۔

بھارت میں گاؤں اور اس کے قوانین کا تصور پُرانا ہے۔گاؤں کے بزرگوں کے ذریعہ 'رچابندا'یا تنازعات کا حل نکالنے کے عمل کو یہاں ایک قانونی عمل سمجھا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے گاؤں والے سرکاری عدالتوں میں جانے سے ہچکچاتے ہیں۔

چالیس سال قبل گاؤں کے عوام کو انصاف دلانے کے مقصد سے 30 ہزار قانونی پینل تشکیل کیے گئے اور تیس سال قبل جب این ٹی راما راؤ کی حکومت نے اسمبلی میں منڈل پرجا پریشد کا قانون لایا تھا، اس وقت کی کانگریس حکومت نے اسکے خلاف ووٹ دیا تھا۔حالانکہ راما راؤ نے سنہ 1995 میں اس قانون کو منظور تو کروایا لیکن یہ ایک سال کے اندر ہی رد ہوگیا۔

منموہن سنگھ کی حکومت نے آبادی کے سبھی طبقوں کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے دیہی عدالتوں کا تصور متعارف کرایا تھا۔حالانکہ پہلے مرحلے پر 5 ہزار دیہی عدالتوں کے قیام کی اطلاعات تھی لیکن آندھراپردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ وائی ایس ریڈی نے اسکے خلاف فیصلہ لیا۔

بالآخر آندھرا پردیش میں 82 اور تلنگانہ میں55دیہی عدالتیں قائم تو ہوگئی ہیں لیکن اس سلسلے میں مزید کوئی بہتری ہوتے نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ح اگر عدالتی نظام کی اس عدم مرکزیت کے منصوبے کو صحیح سمت میں آگے بڑھایا جائے تو دیہی آبادی کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

جولائی 2019میں سپریم کورٹ نے سنہ 1979میں دودھ میں ملاوٹ سے متعلق ایک مقدمہ کو خارج کردیا جو مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر ہونے کے بعد،سیشن کورٹ اور پھر ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ میں پہنچا تھا۔اس طرح یہ مقدمہ چار دہائیوں تک مختلف عدالتوں میں گھسیٹا جاتا رہا ہے تاہم یہ اس طرح کا کوئی پہلا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ماتحت عدالتوں میں عملہ کی شدید قلت کی وجہ سے اس طرح کے ہزاروں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔

بھارت کا عدالتی نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ مدعی قانونی لڑائی لڑنے کے دوران اپنی ساری آمدنی تک کھودیتا ہے۔70فیصد دیہی آبادی، جس میں سے نصف پسماندہ ہے، اس ملک میں حصولِ انصاف ایک سراب کی طرح ہے۔

قانون کہتا ہے کہ قانونی اصولوں کے مطابق کام کرنے والی عدالتوں کو ثبوت کے قاعدہ کی تعمیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ سیول مقدمات کو چھ ماہ کے اندر نپٹایا جاسکتا ہے۔

لاءکمیشن نے سنہ 1986کی اپنی رپورٹ میں درج کیا تھا کہ دائرہ اختیار کے مطابق عدالتوں کا قیام اعلیٰ عدالتوں پر پڑ رہے بوجھ کو کافی حد تک کم کرسکتا ہے اور اگر ملک بھر میں قریب 50 ہزار بلاکوں میں عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا تو اس سے دیہی و شہری غریب عوام کو بڑی راحت مل سکتی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ نے اس دلیل کو بھی برقرار رکھا تھا کہ عدالتوں کے قیام اور انہیں بنائے رکھنے کے اخراجات پر نظرِ ثانی کی جانی چاہیئے تاکہ مرکزی اور متعلقہ ریاستی حکومتیں مشترکہ طور پر یہ اخراجات اٹھائیں۔چونکہ حقِ انصاف ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کا خیرمقدم کیا جانا چاہیئے۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 4:37 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.