نئی دہلی: ممتاز شاعر وخطاط قیس رامپوری کا ہفتہ کی شام انتقال ہوگیا۔ مرحوم تقریبا پانچ سال سے بستر مرگ تھے، قوت گویائی معدم ہوگئی تھی، فالج کی وجہ سے ہاتھ پیر نے کام کرنا بند کردیا تھا۔ پائپ کے سہارے کھانا کھلایا جاتا تھا۔ مرحوم قیس رامپور نے اپنی بہترین خطاطی کے ذریعے زمانہ تک نئی دنیا، اس کے بعد عالمی سہارا میگزین اور پھر روزنامہ راشٹریہ سہارا کو زینت بخشی۔ اس کے ساتھ وہ اچھےشاعر تھے، انہوں نے ہندوستان کے ساتھ پاکستان میں بھی متعدد مشاعروں میں شرکت کی۔ مرحوم قیس رامپوری نے عزیز برنی کے ساتھ ایک زمانہ تک روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو میں سینئر مدیر کے طور پر کام کیا۔ مرحوم قیس رامپوری کے چھوٹے بھائی سید اقبال علی نے بتایا کہ مرحوم بچپن سے ہی شعر و شاعری کے شوقین تھے۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان میں متعدد مشاعرے پڑھے۔ سید اقبال علی نے کہا کہ مرحوم قیس رامپوری کی کئی کتابیں ریختہ نے شائع کی ہیں۔
وہیں مرحوم قیس رامپوری کے صاحبزادے شیراز علی نے کہا کہ وہ تین بہن اور ایک بھائی ہیں۔ ولد صاحب فالج کے شکار تھے اور تقریبا پانچ سال سے بستر مرگ تھے،وہ قوت گویائی سے محروم تھے۔ انہوں نے کہا کہ قیس رامپوری کی متعدد کتابیں منظر عام پر اچکی ہیں۔معروف اردو صحافی معصوم مراد آبادی نے ان کی حالت بیماری کو دیکھتے ہوئےلکھا تھا ہمیشہ بولتے، چہچہاتے، لفظوں کا جادو جگاتے اور سدا مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ لفظوں کونشست وبرخاست کا ایسا سلیقہ سکھاتے تھے کہ ان پر جادو گر کا گمان ہوتا تھا۔ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد تھے اور خود ہی خاتم بھی۔ جب سے اردو خطاطی کا فن کمپیوٹر کے قالب میں ڈھلا ہے تب سے ایسے فن کار معدوم ہوگئے ۔
جو اپنی انگلیوں میں قلم کو ایسی جنبش دیتے تھے کہ الفاظ میں قدرتی حسن کی آمیزش ہوجاتی تھی۔آج بستر علالت پر قیس رامپوری کی ان انگلیوں کو بےحس وبے جنبش دیکھنا کتنی اذیت ناک ہے۔ یہ وہی لوگ جان سکتے ہیں جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے یا انھیں قریب سے دیکھا ہے۔ راقم الحروف بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہے، جس نے برسوں ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ میں ان کی رفاقت میں کام کیا۔حالانکہ وہاں میرا میدان صحافت تھا، لیکن کتابت وخطاطی کے فن سے واقفیت کے سبب میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا۔ جب کبھی وہ چھٹی پر جاتے یا طبیعت ناسازہوتی تو ان کی ذمہ داریاں میرے سپرد کردی جاتیں۔ اس طرح میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر اخبار کا لے آؤٹ اور سرخیاں بناتا تھا۔میں نے روایتی خطاطی کی تربیت حاصل کی تھی، جبکہ قیس صاحب کو روایتی خطاطی کے ساتھ ساتھ جدید آرٹ اور تزئین کاری کا بڑا تجربہ تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ کی مقبولیت میں ان کی تزئین کاری اور آرٹ کو بڑا دخل تھا۔ ’نئی دنیا‘ کی منہ بولتی سرخیوں کی بدولت ہی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ باقی چیخ وپکار اس کے مواد میں ہوتی تھی۔
شاعری قیس رامپوی کاپہلا عشق تھا یا دوسرا، اس کا علم مجھے نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اخبار کی سرخیاں لکھتے وقت بھی شعر گنگناتے رہتے تھے۔ ان کی شاعری بھی عصری موضوعات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ’نئی دنیا‘ کے صفحہ اوّل پر شائع شدہ ان کے ایک شعر نے بڑی دھوم مچائی تھی، جو انھوں 90 کی دہائی میں برپا ہونے والے خونریز فسادات پر کہا تھا۔ شعر یوں تھا۔
دئیے جلانے کی رسمیں بھلا چکے شاید
ہمارے شہر میں انساں جلائے جاتے ہیں
شاعری ان کا شوق ضرور تھا مگر ان کی سب سے زیادہ دلچسپی خطاطی کے فن میں تھی۔انھوں نے اپنے ذوق لطیف کی بدولت ہفتہ واری صحافت کی منہ بولتی سرخیاں لکھنے اور خوبصورت لے آؤٹ بنانے کا ہنر خود ایجاد کیا تھا۔ نفاست ان کی انگلیوں میں ہی نہیں بلکہ ان کی پوری شخصیت میں ڈھلی ہوئی تھی۔ وہ ہرروز اجلے کپڑے پہن کر دفتر آتے تھے۔ان کی شخصیت تو دیدہ زیب تھی ہی، ان کے جملے اور تبصرے بھی دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ پان کھانا ان کی عادت تھی، جو وہ اپنے گھر سے بنواکر لاتے تھے۔ پان کے کثرت استعمال سے ان کی زبان اور ہونٹ ہمیشہ سرخ رہتے تھے۔
شاعری کے حوالے سے ان کا واحد مجموعہ کلام بڑی مشقت کے بعد میرے ہاتھ لگا ہے تو سوچا کیوں نہ اپنے قارئین کو اس سے بھی روشناس کرادوں۔ ’سمندردرسمندر‘ کے نام سے 109 صفحات کا یہ مجموعہ 1987 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی اشاعت خود انھوں نے ہی اپنے صدف پبلی کیشنز سے کی تھی جس کا پتہ فراش خانہ میں واقع ان کا گھرہے۔
یہ بھی پڑھیں:رام مندر تقریبات سے متعلق ملی ذمہ داران کا مشترکہ بیان
قیس رامپوری نے پرانی دہلی کے تنگ وتاریک علاقہ فراش خانہ کی گلی راجان میں لمبا عرصہ گزارا۔ اب وہ اپنے بیٹے کے پاس شاہین باغ میں صاحب فراش ہیں۔ اسی مجموعہ میں ان کا ایک اور شعر درج ہے۔
ہمیں اس شرط پر یہ زندگی راس آئی ہے
کہ ہم سانسیں بھی لیں تو دوسروں کے پھیپھڑوں سے لیں
قیس رامپوری کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا ہجوم ہے۔ انھوں نے بڑی انقلابی قسم کی شاعری کی ہے۔ ان کے دوست اور ممتاز شاعر امیر قزلباش نے ’سمندر درسمندر‘ میں لکھا ہے کہ:
”قیس رامپوری میرے عزیزترین دوست اور پسندیدہ شاعر ہیں۔قیس کے یہاں ذاتی واردات اور عصر حاضر کے مسائل کی جھلکیاں فنی اہتمام کے ساتھ نظر آتی ہیں۔