سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے۔
یہ اشعار سن کر عظیم انقلابی اور معروف مجاہد آزادی رام پرساد بسمل Ram Prasad Bismil کی یاد آجاتی ہے، کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ تحریر رام پرساد بسمل کی ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے تحریر کردہ بسمل عظیم آبادی ہیں۔ جیسا کہ اس لائن کو رام پرساد بسمل نے اتنا گایا کہ یہ ان کے نام سے مشہور ہو گئی۔
جنھوں نے جنگ آزادی کا ایسا بگل بجایا تھا کہ اس سے برطانوی حکومت کی بنیاد ہل گئی تھی، رام پرساد بسمل نے تحریک آزادی کی وہ چنگاری جلائی تھی، جس نے بعد میں جوالا کا روپ لے لیا تھا۔
رام پرساد بسمل مشہور مجاہد آزادی تھے، جو تاریخی کاکوری ٹرین ڈکیتی میں ملوث تھے۔ ان کے والد شاہ جہاں پور میونسپلٹی میں ملازم تھے۔ رام پرساد نے اپنے والد سے ہندی سیکھی اور انہیں مولوی سے اردو سیکھنے کے لئے بھیجا گیا۔ وہ انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ لینا چاہتے تھے اور والد کی ناپسندیدگی کے باوجود انہیں ایسے ہی ایک اسکول میں داخلہ مل گیا۔
جب ان کے والد مرلی دھر ہر کوشش کے باوجود انہیں "یو" نہیں سکھا سکے تو انہوں نے اردو میڈیم کے ذریعہ رام کو تعلیم دینے کا فیصلہ کیا اور شاہجہان پور کے اسلامیہ اسکول میں داخلہ کرایا گیا۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوئے، اور رومانوی شاعری اور سستے ناولوں کی کتابیں پڑھنا شروع کیں، جس سے ان کی تعلیم متاثر ہوئی۔
جب وہ دو بار اردو کی ساتویں جماعت میں ناکام ہوئے تو انہیں شہر کے مشن اسکول نامی ایک انگریزی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ فرسٹ ڈویژن کے ساتھ مشن اسکول سے آٹھویں کلاس پاس کرنے کے بعد، ان کا داخلہ شاہجہان پور کے گورنمنٹ اسکول میں ہو گیا۔ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران، انہوں نے اپنا نام 'بسمل' رکھا اور محب وطن اشعار لکھتے رہے۔ وہ اپنے ہم جماعت میں بسمل کے نام سے مقبول ہوئے۔
بہت کم ہی عمر میں ان کا تعارف آریہ سماج سے ہوا تھا۔ وہ اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے زندگی بھر اکیلا رہنے کا عزم کیا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
بسمل نے 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئےقاتل میں ہے' کی نظم کو لافانی کردیا۔ یہ اصل میں پٹنہ سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر بسمل عظیم آبادی نے 1921 میں لکھی تھی۔ بسمل نے اپنے دوستوں اشفاق اللہ خان، روشن سنگھ اور دیگر کے ساتھ1927 میں جیل میں بند ہونے پر 'میرا رنگ دے بسنتی چولا' گیت لکھا تھا۔
انہوں نے جیل میں کاکوری کے شہید نام سے ایک کتاب لکھی، جسے انہوں نے اپنی موت سے کچھ دن پہلے مکمل کیا۔ رام پرساد بسمل کو 19 دسمبر 1927 کو گورکھپور جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ وہ صرف 30 سال کے تھے۔
مزید پڑھیں:
Lalu Prasad Yadav birthday: منفرد لب و لہجے کے رہنما لالو پرساد یادو کی 74 ویں سالگرہ
رام پرساد بسمل کو 19 دسمبر 1927 کو موت کی سزا دی گئی جب انہیں لے جانے والے آئے تو وہ اٹھ کر چل دیے اور اس دوران انہوں نے کہا
مالک تیری رضا رہے اور تو ہی تو رہے
باقی نہ میں رہوں میری آرزو رہے
جب تک تن میں جان رگوں میں لہو رہے
تیرا ہی ذکر یار تیری جستجو رہے
رام پرساد بسمل کی پیدائش 11 جون 1897 کو ہوئی۔ اس عظیم مجاہد آزادی کو 19 دسمبر 1927 کو گورکھپور کی جیل میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، تب ان کی عمر محض 30 سال کی تھی۔
آج ان کی یوم پیدائش کے موقع پر ملک ان کی قربانیوں کو یاد کر رہا ہے اور خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔