سابق افسران نے امید ظاہر کی ہے کہ اتنے بڑے قومی اہمیت کے مسئلے پر وہ ’سطحی سیاست‘ کو بند کر دیں گے۔
فوج، فضائیہ اور بحریہ میں ملک کی سلامتی کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے والے ان بہادروں نے جمعرات کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ لداخ میں سرحد پر بھارتی اور چینی فوج کے درمیان جاری تعطل کے سلسلے میں راہل گاندھی کے حالیہ ٹوئٹ اور بیانوں سے بہت فکرمند ہیں اور ان بیانوں کی مذمت کرتے ہیں۔
راہل گاندھی کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ دنیا کی سب سے مشکل جغرافیائی صورتحال میں ہمارے فوجی کیسے کام کرتے ہیں۔
سابق فوجی افسران نے کہا کہ راہل گاندھی کو اس تنازعہ کی تاریخ پڑھنی چاہیے اور 1962 کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ملک کی کمان ان کے والد کے نانا پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہاتھوں میں تھی۔ اس وقت ہم نہ صرف بغیر تیاری کے لڑے بلکہ ہمیں چین سے قابل ہتک شکست بھی اٹھانی پڑی اور ہمیں بڑا نقصان ہوا۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ اچھے ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر وسائل سے محروم ہونے کے باوجود بھارتی فوجیوں کی زبردست بہادری کے سبب چین کو بھی بڑی قیمت چکانی پڑی اور اسے جیتے ہوئے ہمارے علاقے سے ہٹنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا اقتدار اعلیٰ اور ریاستی سالمیت کی حفاظت کے لیے ہمارے فوجی بڑی تعداد میں شہید ہوئے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ سیاسی قیادت نے اپنی ہزاروں کلومیٹر کی زمین گنوا دی جس پر آج چین قابض ہے۔ اس میں اقصائے چین شامل ہے۔ آج کا تنازعہ اور فوجی تعطل اسی بڑی غلطی کا نتیجہ ہے۔
سابق فوجیوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات کے لیے راہل گاندھی کو جو بھی محرک ہو لیکن ہم سب کے لیے درست حقائق پر توجہ نہ رکھنا اور قومی سلامتی کے خلاف بیان ہماری تشویش کی اہم وجہ ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ 2017 میں ڈوکلام تعطل کے وقت راہل گاندھی چینی ڈپلومیٹس کے ساتھ میل جول کر رہے تھے۔ کسی بھی بھارتی سے اپنے ملک اور اپنی فوج کے خلاف ایسے بیانوں کی امید نہیں ہوتی ہے جو دشمن ملک کی کھلی حمایت کرنے والے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کو پاکستان میں جوں کا توں دہرایا گیا اور اس سے ملک مخالف عناصر اور دہشت گردوں کو شہہ ملی۔ ایسے فوجی اہمیت کے مسائل کو ’نچلی سطح کی سیاسی‘ فائدے کے لیے من مانا رخ دینا بے حد قابل مذمت ہے۔ راہل گاندھی کی اس نچلی سطح کی سیاست سے ہم تمام سابق فوجی بے عزتی اور عار محسوس کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا سمیت پورے ملک سے اپیل کرتے ہیں کہ راہل گاندھی کے غیر ذمہ دارانہ بیانوں کی بیک آواز مذمت کی جائے۔ ہم یہ بھی گذارش کرتے ہیں کہ اتنے بڑے قومی اہمیت کے مسئلے کا سیاسی استعمال نہ کیا جائے۔ امید ہے کہ اس طرح کے بیان اب نہیں آئیں گے۔