کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلہ کے مطابق اسکولز اور کالجز میں حجاب کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی جس کے خلاف اب سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جا چکی ہے تاہم جب یہ فیصلہ سنایا گیا تھا اس دوران ملک کے مختلف مقامات پر اس فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ان میں سے ایک ریلی اوکھلا کے شاہین باغ سے بھی نکلی تھی جس کی قیادت اے آئی ایم آئی ایم سے کونسلر کے ممکنہ امیدوار محمود انور نے کی تھی، ایک عرصہ بعد ان کے خلاف دہلی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔
دراصل محمود انور نے گزشتہ ماہ حجاب معاملے پر ایک احتجاجی مارچ کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے باقاعدہ پولیس سے اجازت لی گئی تھی۔ احتجاج بہت پرسکون انداز میں کیا گیا تھا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی لیکن پولیس نے ڈیڑھ ماہ بعد ان پر کرونا قوانین کی خلاف ورزی اور پولیس کے کام میں دخل اندازی کا الزام لگا کر ایف آئی آر درج کی ہے۔ محمود انور نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مارچ شاہین باغ سے ابو الفضل انکلیو تک نکالا تھا جس کے لیے پولیس سے بھی منظوری لی گئی تھی جس کے بعد ہی یہ احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
محمود نے بتایا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں ایسی کسی بھی ذمہ داری کا ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اس ہجوم میں موجود تمام لوگوں کو کورونا وائرس کی رہنما ہدایات پر عمل کرائیں گے اور نہ ہی ان سے پولیس نے اس بات کی ذمہ داری لینے کو کہا تھا کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف شاہین باغ تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران انتخابات کے دوران عوام کے درمیان ایک ہجوم کے ساتھ گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ نہ تو کووڈ کی رہنما ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی سوشل ڈسٹینسنگ، اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی لیکن میرے خلاف پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے۔