نئی دہلی: اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کے عنوان سے دارالحکومت میں ایک پروقار اجتماع منعقد ہوا۔ اردو کا یہ سب سے بڑا ادبی اجتماع ہے جو ستائیس سال سے لگاتار منعقد ہو رہا ہے۔ اجتماع کے دوسرے دن کے تین اجلاس جامعہ کے سی آئی ٹی میں منعقد ہوئے۔ پہلا اجلاس تحقیقی و تنقیدی اجلاس پر مشتمل تھا۔ صدارتی خطاب میں پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ ’’اردو کے ارتقائی دور میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ فارسی کا عکس نظر آتا ہے۔‘‘ غزل پر گفتگو کرتے ہوئے شمس قیس رازی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’غزل، آدمی بالقصد نہیں کہہ سکتا او نہ ہی یہ ہر وقت کہی جا سکتی ہے۔ بمقابلہ دیگر اصناف سخن کے کہ وہ بالقصد کہی جا سکتی ہیں۔ غزل میں ایک ایسا جذبہ اور کیفیت طاری ہوتی ہے کہ ایسے میں اس کے منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ غزل ہوتی ہے۔ اصول و قواعد تو بعد والوں کے لیے ہیں۔‘‘ تراجم پرگفتگو کرتے ہوئے قاسمی نے کہا کہ علمائے کرام کی اردو خدمات کو اردو والوں نے بہت ہی کم سراہا ہے۔
پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ ’’اردو اکادمی، دہلی کا پرواگرام ’نئے پرانے چراغ ‘ مجھے بہت ہی عزیز ہے۔ کیونکہ اس پروگرام میں ہم نئے ذہنوں سے واقف ہوتے ہیں اور نیا ذہن ہمیشہ پرانے ذہن سے آگے کا سوچتا ہے اور اس میں یہ اہم ہوتا ہے کہ نیا ذہن پرانے ذہن سے کیا لے رہا ہے اور کیا رد کررہا ہے۔
ظہرانے کے بعد اس پانچ روزہ پروگرام کا پہلا تخلیقی اجلاس منعقد ہوا۔ جس کی صدارت مشہور صحافی سہیل انجم، افسانہ نگار خورشید اکرم اور ڈاکٹر عبد النصیب خاں نے کی۔ کہانی کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے خورشید اکرم نے کہا کہ ’’کہانی کا لمبا عرصہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ منٹوں اور گھنٹو ں پر محیط ہوتی ہے۔ اردو کے چار بڑے افسانہ نگاروں نے دیگر زبانوں کی کہانیوں کا مزاج بھی بدلا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کہانیوں میں زبان صرف بار برداری کا رول ادا کرتا ہے، اس میں ش ق جیسی اردو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے صدر اجلاس - سہیل انجم - نے کہا کہ افسانوں میں تنوع اور خوبصورت زبان حیرت میں ڈال رہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ زبان ہی خراب ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: Literary Event In Ganderbal تقریب کا مقصد نوجوان نسل میں کشمیریت کو فروغ دینا ہے
اجتماع کے تیسرے صدر محترم عبد النصیب خاں نے کہا کہ ’’افسانہ اب کوئی خاص صنف نہ ہوکر بہت سی اصناف کی عکاسی والا صنف ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘ اس اجلاس کی نظامت یوسف رضا نے انجام دی۔ اجلاس میں ڈاکٹر محمد نظام الدین نے ’’ناک‘ اورسودا ‘‘، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ نے ’اس ہار کو کیا نام دوں ‘، ڈاکٹر ذاکر فیضی نے ’ادھورا نروان‘، ڈاکٹر نشاں زیدی نے ’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘، ڈاکٹر نشاط حسن نے ’قدرت کا فیصلہ‘ اور ڈاکٹر امتیاز حمد علیمی نے ’موت کا جشن‘ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے ۔
اس اجلاس میں بطور خاص پر وفیسر احمد محفوظ، پروفیسر شاہ عالم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر شہنواز فیاض، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر راحین شمع، ڈاکٹر خوشتر زریں ودیگر اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔ دوسرے دن کا تیسرا اجلا س محفل شعر و سخن کے عنوان سے انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس کی صدرات استاد شاعر وقار مانوی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مرزا عارف نے انجام دیے۔