علی جاوید کے جنازے میں اردو دنیا کی متعدد شخصیات نے شرکت کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ علی جاوید گزشتہ 15 پندرہ روز سے دہلی کے جی بی پنت ہسپتال میں داخل تھے اور گزشتہ رات انہیں برین اسٹروک ہوا جس کی وہ تاب نہ لاسکے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
پروفیسر علی جاوید اس سے پہلے بھی برین اسٹروک کا شکار ہوئے تھے لیکن اس مرتبہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکے اور دار فانی سے کوچ کرگئے۔
دہلی یونیورسٹی شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ابن کنول نے پروفیسر علی جاوید کے انتقال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کا مرحوم کے ساتھ کافی پرانا تعلق تھا وہ طالب علمی کے دور سے ہی حق کی آواز بلند کرتے تھے انہوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے اساتذہ آج بھی انہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔
وہیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ پروفیسر علی جاوید کے جانے سے اردو ادب میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ادب کا معاملہ ہو صحافت کا معاملہ ہو ثقافت کا معاملہ ہو یا سماجی معاملہ، علی جاوید نے ہر معاملے میں ترقی پسندانہ سوچ کو آگے بڑھایا اور ہمیشہ اسٹینڈ لیا۔
علی جاوید معروف اردو مصنف ہی نہیں بلکہ مختلف تحریکوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال اور فلسطین سمیت افریقی ایشیائی ممالک میں سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کی طرف سے شروع کی گئی ترقی پسند تحریک سے جڑے ہوئے تھے۔
پروفیسر علی جاوید کا شمار اردو زبان کے بڑے دانشوروں میں کیا جاتا تھا۔ وہ دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ذاکر حسین کالج میں اردو کے لیکچرار بھی تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے کارگزار صدر تھے۔
اس کے علاوہ افریقن اور ایشین رائٹرز کے صدر، پروگریسیو رائٹرز کے جنرل سکریٹری، آل انڈیا یونیورسٹی اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر بھی رہے ہیں۔
پروفیسر علی جاوید نے برطانوی مستشرقین اور تاریخ ادب، کلاسیکیت اور رومانویت، جعفر ذتلی کی احتجاجی شاعری، افہام اور تفہیم، اردو کا داستانوی ادب جیسے کتابیں لکھی ہیں۔
ان کے جنازے میں، قمر آغا، اتل انجان، پروفیسر صادق، پروفیسر ابن کنول، فرحت رضوی، پروفیسر اپوروانند، عمیق جامعی، انیس اعظمی اطہر فاروقی، ویبھوتی نارائن رائے اور پروفیسر انور پاشا نے شرکت کی۔