کانگریس نے سٹی پولیس چیف اور جے این یو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے جمعہ کے روز جے این یو تشدد کیس میں نو مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کیں اور دعوی کیا کہ جے این یو ایس یو کے صدر آئیشی گھوش ان میں سے ایک تھیں۔ نو میں سے سات کا تعلق بائیں بازو والی طلبا تنظیموں سے ہے جبکہ دو دائیں بازو کے طلباء تنظیم سے وابستہ ہیں۔
کانگریس کے سینئر ترجمان اجے ماکن نے کہا کہ دہلی پولیس کی تحقیقات پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے ہیں کیونکہ وہ آزادانہ طور پر جانچ پڑتال کرنے اور مجرموں کی شناخت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا جے این یو کیس کی تحقیقات غیر اطمنان بخش ہے۔ مظلوم طلبا و طالبات کو ہی ملزم بنایا گیا ہے۔
جے این یو کیمپس میں 5 جنوری کو ہونے والے تشدد کی بنیاد پر کچھ ویڈیو کلپس چلاتے ہوئے پارٹی نے دعوی کیا کہ ایک وکاس پٹیل کی شناخت پولیس نے ایک فسادی کے طور پر کی ہے لیکن اس کا اصل نام شیو منڈل ہے۔
تحقیقات پر سوالات اٹھاتے ہوئے ماکن نے کہا کہ ’جہاں تک تحقیقات کا تعلق ہے دہلی پولیس نے اچھا کام نہیں کیا ہے اور ایک طرح سے ایسا لگتا ہے کہ اس پورے واقعے میں یہ دہلی پولیس کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ تشدد کے دوران پولیس موقع پر موجود تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس کسی بھی فسادی کی صحیح طور پر شناخت نہیں کر سکی ہے۔
اجے ماکن نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے وزارت داخلہ کے اثر و رسوخ کے تحت تحقیقات کی ہیں اور اس سلسلے میں وزیر داخلہ کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کانگریس پارٹی دہلی پولیس کمشنر اور جے این یو کے وائس چانسلر کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے کردار کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے جبکہ کانگریس کے صدر پہلے ہی جے این یو تشدد کیس کی آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں‘۔