ETV Bharat / state

’دہلی پولیس کا ہاتھ جے این تشدد میں تھا‘

author img

By

Published : Jan 11, 2020, 10:30 AM IST

کانگریس نے دہلی پولیس پر جے این یو تشدد کیس کی تحقیقات کرنے پر الزام عائد کیا کہ دہلی پولیس حکمراں جماعت اور امت شاہ سے واضح طور پر متاثر ہے۔

’دہلی پولیس کا ہاتھ جے این تشدد میں تھا‘
’دہلی پولیس کا ہاتھ جے این تشدد میں تھا‘

کانگریس نے سٹی پولیس چیف اور جے این یو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے جمعہ کے روز جے این یو تشدد کیس میں نو مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کیں اور دعوی کیا کہ جے این یو ایس یو کے صدر آئیشی گھوش ان میں سے ایک تھیں۔ نو میں سے سات کا تعلق بائیں بازو والی طلبا تنظیموں سے ہے جبکہ دو دائیں بازو کے طلباء تنظیم سے وابستہ ہیں۔

کانگریس کے سینئر ترجمان اجے ماکن نے کہا کہ دہلی پولیس کی تحقیقات پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے ہیں کیونکہ وہ آزادانہ طور پر جانچ پڑتال کرنے اور مجرموں کی شناخت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا جے این یو کیس کی تحقیقات غیر اطمنان بخش ہے۔ مظلوم طلبا و طالبات کو ہی ملزم بنایا گیا ہے۔

جے این یو کیمپس میں 5 جنوری کو ہونے والے تشدد کی بنیاد پر کچھ ویڈیو کلپس چلاتے ہوئے پارٹی نے دعوی کیا کہ ایک وکاس پٹیل کی شناخت پولیس نے ایک فسادی کے طور پر کی ہے لیکن اس کا اصل نام شیو منڈل ہے۔

تحقیقات پر سوالات اٹھاتے ہوئے ماکن نے کہا کہ ’جہاں تک تحقیقات کا تعلق ہے دہلی پولیس نے اچھا کام نہیں کیا ہے اور ایک طرح سے ایسا لگتا ہے کہ اس پورے واقعے میں یہ دہلی پولیس کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ تشدد کے دوران پولیس موقع پر موجود تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس کسی بھی فسادی کی صحیح طور پر شناخت نہیں کر سکی ہے۔

اجے ماکن نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے وزارت داخلہ کے اثر و رسوخ کے تحت تحقیقات کی ہیں اور اس سلسلے میں وزیر داخلہ کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کانگریس پارٹی دہلی پولیس کمشنر اور جے این یو کے وائس چانسلر کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے کردار کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے جبکہ کانگریس کے صدر پہلے ہی جے این یو تشدد کیس کی آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں‘۔

کانگریس نے سٹی پولیس چیف اور جے این یو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے جمعہ کے روز جے این یو تشدد کیس میں نو مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کیں اور دعوی کیا کہ جے این یو ایس یو کے صدر آئیشی گھوش ان میں سے ایک تھیں۔ نو میں سے سات کا تعلق بائیں بازو والی طلبا تنظیموں سے ہے جبکہ دو دائیں بازو کے طلباء تنظیم سے وابستہ ہیں۔

کانگریس کے سینئر ترجمان اجے ماکن نے کہا کہ دہلی پولیس کی تحقیقات پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے ہیں کیونکہ وہ آزادانہ طور پر جانچ پڑتال کرنے اور مجرموں کی شناخت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا جے این یو کیس کی تحقیقات غیر اطمنان بخش ہے۔ مظلوم طلبا و طالبات کو ہی ملزم بنایا گیا ہے۔

جے این یو کیمپس میں 5 جنوری کو ہونے والے تشدد کی بنیاد پر کچھ ویڈیو کلپس چلاتے ہوئے پارٹی نے دعوی کیا کہ ایک وکاس پٹیل کی شناخت پولیس نے ایک فسادی کے طور پر کی ہے لیکن اس کا اصل نام شیو منڈل ہے۔

تحقیقات پر سوالات اٹھاتے ہوئے ماکن نے کہا کہ ’جہاں تک تحقیقات کا تعلق ہے دہلی پولیس نے اچھا کام نہیں کیا ہے اور ایک طرح سے ایسا لگتا ہے کہ اس پورے واقعے میں یہ دہلی پولیس کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ تشدد کے دوران پولیس موقع پر موجود تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس کسی بھی فسادی کی صحیح طور پر شناخت نہیں کر سکی ہے۔

اجے ماکن نے مزید کہا کہ دہلی پولیس نے وزارت داخلہ کے اثر و رسوخ کے تحت تحقیقات کی ہیں اور اس سلسلے میں وزیر داخلہ کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کانگریس پارٹی دہلی پولیس کمشنر اور جے این یو کے وائس چانسلر کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے کردار کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے جبکہ کانگریس کے صدر پہلے ہی جے این یو تشدد کیس کی آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں‘۔

ZCZC
PRI GEN NAT
.NEWDELHI DEL124
CONG-JNU-POLICE
Probe into JNU violence case 'shoddy'; sack Delhi police chief, JNU VC: Cong
         New Delhi, Jan 10 (PTI) Accusing the Delhi Police of conducting a "shoddy" investigation into the JNU violence case, the Congress on Friday alleged that it was clearly influenced by the government, the home minister and the ruling party, and demanded the removal of the city police chief and the university's vice chancellor.
         The Delhi Police on Friday released pictures of nine suspects in the JNU violence case and claimed that JNUSU president Aishe Ghosh was one of them. Of the nine, seven belong to left-leaning student organisations while two are affiliated to right-wing students' body, it said.
         Congress' senior spokesperson Ajay Maken said question marks have been raised on the investigations by the Delhi police as it has "failed to carry out the probe independently" and identify the culprits.
         "It is a shoddy investigation to say the least. The victims have been made the accused. The investigation is clearly influenced by the government, the home minister and the ruling party," he told reporters.
         Playing some video clips purportedly of the January 5 violence in the JNU campus, the party claimed that one Vikas Patel has been identified by the police as a rioter, but his real name is Shiv Mandal.
         Raising questions on the probe, Maken said, "The Delhi Police has not done a good work as far as investigation is concerned and in a way it seems that the force was also an accomplice in the entire incident because everything happened in front of it. The Delhi police has not been able to identify even a single rioter correctly, it has wrongly identified them."
         Alleging that the Delhi police has carried out the probe under the influence of the home ministry, the Congress leader said, "There should be investigations against the home minister also."
         "The Congress party demands immediate removal of the Delhi police commissioner and the JNU vice chancellor. The role of Home Minister Amit Shah should also be probed. The Congress president has already demanded an independent judicial probe into the JNU violence case," he said.
         The Congress spokesperson said the BJP-led government should at least agree to their veteran leader Murli Manohar Joshi, who has called for the removal of JNU Vice Chancellor M Jagadesh Kumar. PTI SKC SKC
NSD
NSD
01102038
NNNN
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.