ETV Bharat / state

شاہین باغ کی خاتون مظاہرین کی اپیل: وزیراعظم اپنے عہدے کا پاس و لحاظ رکھیں

author img

By

Published : Feb 4, 2020, 5:54 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 4:14 AM IST

انہوں نے کہا ہر عہدہ کا وقار ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے عہدے کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا دہلی میں الیکشن ہونے والا اور ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لئے کوئی موضوع نہیں ہے اس لئے وہ شاہین باغ کی خاتون مظاہرین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

prime minister narendra modi should respect his position: shaheen bagh anti caa protesters
وزیر اعظم اپنے عہدے کا وقار رکھے: شاہین باغ خاتون مظاہرین

قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری احتجاج میں خاتون مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان پر کہ 'یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے' پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وزیر اعظم تجربہ کرنے میں ماہر ہیں اور وہ 2002 میں گجرات میں بھی تجربہ کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہماری پریشانی، ہمارے بچوں کا مستقبل، ہماری بے چینی اور قانون کے تئیں ہمارا اضطراب نظر نہیں آرہا ہے انہیں صرف ہندو مسلم کرکے ووٹوں کی صف بندی نظر آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہر وقت شاہین باغ کا نام لیکر ووٹوں کی صف بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کبھی ہماری تکلیف جاننے کی کوشش نہیں کی۔ حکومت کا کوئی نمائندہ آج تک ملنے کے لئے یہاں نہیں آیا۔ مہینوں سے ایک خاتون بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن کوئی بھی ان کا حال پوچھنے نہیں آیا اور وزیراعظم شاہین باغ خاتون مظاہرین کو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے کہہ کر اپنی ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نے کل دہلی میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ 'سلیم پور ہو، جامعہ یا شاہین باغ، سی اے اے کے بارے میں پچھلے کئی دنوں سے مظاہرے ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کیا یہ مظاہرہ محض ایک اتفاق ہے؟ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست کی ایک ڈیزائن ہے، جو ملک کی ہم آہنگی کو برباد کرنے والی ہے'۔

خواتین نے کہا کہ ہر انسان اپنے تجربے کو بیان کرتا ہے اور وزیر اعظم بھی اپنا تجربہ بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہی گرتا ہے جو برتن میں ہوتا ہے اور وزیر اعظم نے وہی کہا کہ جو ان کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ انہوں نے کہا ہر حکومت اپنے وقار کا خیال رکھتی ہے اور وزیر اعظم کو بھی کچھ بھی بولنے سے پہلے اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔

سماجی کارکن اور زیفکو گروپ کے چیرمین ظفیر احمد خاں نے وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی سوچ ہے اور ان کی سوچ کو ہم بدل نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا ہر عہدہ کا وقار ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے عہدے کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا دہلی میں الیکشن ہونے والا اور ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لئے کوئی موضوع نہیں ہے اس لئے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ وزیر داخلہ بھی اپنے عہدے کے وقار کے منافی باتیں کرتے رہے ہیں اور بٹن اتنا زور سے دبانے کی بات کرتے ہیں کہ ا س کا کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ انہوں نے کہا کہ شاہین باغ مظاہرین کے بارے میں الٹی سیدھی بات کرنے کے بجائے مظاہرین سے ملاقات کریں اور ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

پنجاب سے آنے والے سکھ درشن سنگھ نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ جو بڑی بات کرکے اقتدار میں آئے تھے، اب حالت یہ ہوگئی کہ یہاں سے لوگ بنگلہ دیش جائیں گے کیوں کہ وہاں کا جی ڈی پی کافی اوپر ہے اور یہاں کا کافی گرگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس قانون کے سلسلے میں بے چینی ہے۔ اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو لڑائی لوگوں نے چھیڑی ہے ہم یقین دلانے آئے ہیں کہ ہم مکمل ساتھ دیں گے اور ہم اس لڑائی کو لڑیں گے اور جیتیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ حکومت میں ہیں وہ کرایہ دار ہیں مالک مکان نہیں ہیں کہ ہمیشہ رہیں گے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے تو وہ زبردست غلط فہمی میں ہیں۔

اسی کے ساتھ ہند شدت پسندوں کے شاہین باغ آنے کی خبر سن کر سنگرور سے سکھوں کا ایک جتھہ شاہین باغ پہنچ گیا اور وہ لوگ شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

خیال رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ چار دنوں کے دوران فائرنگ کا واقعات کے باوجود پوری شدت سے احتجاج جاری ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ گیٹ نمبر سات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے کی گئی زیادتی کے بعد سے 15 دسمبر سے احتجاج جاری ہے۔

پہلے یہ احتجاج چند گھٹوں کا ہوتا تھا لیکن حکومت پر کوئی اثر نہ پڑنے کی وجہ سے اسے 24 گھنٹے کا کردیا گیا۔ اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے یہاں ہر روز اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کے لئے کچھ نہ کچھ نیا کیا جارہا ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ پوری شدت سے جاری ہے اور اپنی آواز مزید مضبوطی سے پہنچانے کے لئے گزشتہ کل سے مظاہرین نے رات آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ریلے بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔

پہلے دن کی بھوک ہڑتال میں عشرت جہاں، صدف خاں اور عظیم مہدی بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ خوریجی میں آج کے مقررین میں ریتو چودھری سابق چیرپرسن وومین کمیشن، ستروپا چکرورتی سابق یونین سکریٹری طلبہ جے این یو، آشیش دھا کلاسیکل سنگر اور ابو شمع شاعر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج کی خبر آرہی ہے اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اس احتجاجی دھرنا سے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر سنیلم نے بھی خطاب کیا ہے۔اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں اور یہ خواتین کا دھرنا ضلع سطح سے نیچے ہوکر پنچایت سطح تک پہنچ گیا ہے۔

اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ وہاں بھی پر دہلی اور اترپردیش پولیس کی طرح خواتین مظاہرین ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جیسے ہی پولیس کی ہٹانے کی خبر پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں خواتین پہنچ گئیں اور پولیس کو ناکام لوٹنا پڑا۔

یہاں پر بھی اہم لوگوں کا آنا جانا جاری ہے اور مختلف شعبہ ہائے سے وابستہ افراد یہاں آرہے ہیں اور قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے لیکن خواتین میں بھی حوصلہ اور استقلال میں کی کمی نہیں ہے۔ان سب کے باوجود خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔

پولیس نے احتجاج ختم کرانے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنائے مگر اس کے باوجود خواتین کا جوش و خروش کم نہیں ہوا ہے۔

خیال رہےس سابق گورنر عزیز قریشی سمیت متعدد لوگوں پر ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن آج ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے۔ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔ سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ،سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، چمپارن، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔

قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری احتجاج میں خاتون مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان پر کہ 'یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے' پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وزیر اعظم تجربہ کرنے میں ماہر ہیں اور وہ 2002 میں گجرات میں بھی تجربہ کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہماری پریشانی، ہمارے بچوں کا مستقبل، ہماری بے چینی اور قانون کے تئیں ہمارا اضطراب نظر نہیں آرہا ہے انہیں صرف ہندو مسلم کرکے ووٹوں کی صف بندی نظر آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہر وقت شاہین باغ کا نام لیکر ووٹوں کی صف بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کبھی ہماری تکلیف جاننے کی کوشش نہیں کی۔ حکومت کا کوئی نمائندہ آج تک ملنے کے لئے یہاں نہیں آیا۔ مہینوں سے ایک خاتون بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن کوئی بھی ان کا حال پوچھنے نہیں آیا اور وزیراعظم شاہین باغ خاتون مظاہرین کو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے کہہ کر اپنی ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نے کل دہلی میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ 'سلیم پور ہو، جامعہ یا شاہین باغ، سی اے اے کے بارے میں پچھلے کئی دنوں سے مظاہرے ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کیا یہ مظاہرہ محض ایک اتفاق ہے؟ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست کی ایک ڈیزائن ہے، جو ملک کی ہم آہنگی کو برباد کرنے والی ہے'۔

خواتین نے کہا کہ ہر انسان اپنے تجربے کو بیان کرتا ہے اور وزیر اعظم بھی اپنا تجربہ بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہی گرتا ہے جو برتن میں ہوتا ہے اور وزیر اعظم نے وہی کہا کہ جو ان کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ انہوں نے کہا ہر حکومت اپنے وقار کا خیال رکھتی ہے اور وزیر اعظم کو بھی کچھ بھی بولنے سے پہلے اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔

سماجی کارکن اور زیفکو گروپ کے چیرمین ظفیر احمد خاں نے وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی سوچ ہے اور ان کی سوچ کو ہم بدل نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا ہر عہدہ کا وقار ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے عہدے کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا دہلی میں الیکشن ہونے والا اور ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لئے کوئی موضوع نہیں ہے اس لئے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ وزیر داخلہ بھی اپنے عہدے کے وقار کے منافی باتیں کرتے رہے ہیں اور بٹن اتنا زور سے دبانے کی بات کرتے ہیں کہ ا س کا کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ انہوں نے کہا کہ شاہین باغ مظاہرین کے بارے میں الٹی سیدھی بات کرنے کے بجائے مظاہرین سے ملاقات کریں اور ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

پنجاب سے آنے والے سکھ درشن سنگھ نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ جو بڑی بات کرکے اقتدار میں آئے تھے، اب حالت یہ ہوگئی کہ یہاں سے لوگ بنگلہ دیش جائیں گے کیوں کہ وہاں کا جی ڈی پی کافی اوپر ہے اور یہاں کا کافی گرگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس قانون کے سلسلے میں بے چینی ہے۔ اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو لڑائی لوگوں نے چھیڑی ہے ہم یقین دلانے آئے ہیں کہ ہم مکمل ساتھ دیں گے اور ہم اس لڑائی کو لڑیں گے اور جیتیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ حکومت میں ہیں وہ کرایہ دار ہیں مالک مکان نہیں ہیں کہ ہمیشہ رہیں گے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے تو وہ زبردست غلط فہمی میں ہیں۔

اسی کے ساتھ ہند شدت پسندوں کے شاہین باغ آنے کی خبر سن کر سنگرور سے سکھوں کا ایک جتھہ شاہین باغ پہنچ گیا اور وہ لوگ شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

خیال رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ چار دنوں کے دوران فائرنگ کا واقعات کے باوجود پوری شدت سے احتجاج جاری ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ گیٹ نمبر سات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے کی گئی زیادتی کے بعد سے 15 دسمبر سے احتجاج جاری ہے۔

پہلے یہ احتجاج چند گھٹوں کا ہوتا تھا لیکن حکومت پر کوئی اثر نہ پڑنے کی وجہ سے اسے 24 گھنٹے کا کردیا گیا۔ اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے یہاں ہر روز اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کے لئے کچھ نہ کچھ نیا کیا جارہا ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ پوری شدت سے جاری ہے اور اپنی آواز مزید مضبوطی سے پہنچانے کے لئے گزشتہ کل سے مظاہرین نے رات آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ریلے بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔

پہلے دن کی بھوک ہڑتال میں عشرت جہاں، صدف خاں اور عظیم مہدی بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ خوریجی میں آج کے مقررین میں ریتو چودھری سابق چیرپرسن وومین کمیشن، ستروپا چکرورتی سابق یونین سکریٹری طلبہ جے این یو، آشیش دھا کلاسیکل سنگر اور ابو شمع شاعر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج کی خبر آرہی ہے اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اس احتجاجی دھرنا سے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر سنیلم نے بھی خطاب کیا ہے۔اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں اور یہ خواتین کا دھرنا ضلع سطح سے نیچے ہوکر پنچایت سطح تک پہنچ گیا ہے۔

اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ وہاں بھی پر دہلی اور اترپردیش پولیس کی طرح خواتین مظاہرین ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جیسے ہی پولیس کی ہٹانے کی خبر پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں خواتین پہنچ گئیں اور پولیس کو ناکام لوٹنا پڑا۔

یہاں پر بھی اہم لوگوں کا آنا جانا جاری ہے اور مختلف شعبہ ہائے سے وابستہ افراد یہاں آرہے ہیں اور قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے لیکن خواتین میں بھی حوصلہ اور استقلال میں کی کمی نہیں ہے۔ان سب کے باوجود خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔

پولیس نے احتجاج ختم کرانے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنائے مگر اس کے باوجود خواتین کا جوش و خروش کم نہیں ہوا ہے۔

خیال رہےس سابق گورنر عزیز قریشی سمیت متعدد لوگوں پر ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن آج ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے۔ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔ سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ،سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، چمپارن، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔

Intro:Body:

NationalPosted at: Feb 4 2020 4:54PM



وزیر اعظم کو اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین



نئی دہلی، 4 فروری (یو این آئی۔عابد انور) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری مظاہرہ میں خاتون مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان پر کہ ’یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے‘ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے وزیر اعظم تجربہ کرنے میں ماہر ہیں اور وہ 2002میں گجرات میں بھی تجربہ کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم کو ہماری پریشانی، ہمارے بچوں کا مستقبل، ہماری بے چینی اور قانون کے تئیں ہمارا اضطراب ان کو نظر نہیں آرہا ہے انہیں صرف ہندو مسلم کرکے ووٹوں کی صف بندی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہر وقت شاہین باغ کا نام لیکر ووٹوں کی صف بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کبھی ہماری تکلیف جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ حکومت کا کوئی نمائندہ آج تک ملنے کے لئے نہیں آیا۔ مہینوں سے ایک خاتون بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن کوئی بھی ان کا حال پوچھنے نہیں آیا اور وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کو’یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تجربہ ہے‘ کہہ کر اپنی ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ وزیر اعظم نے کل دہلی میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ، ”سلیم پور ہو، جامعہ یا شاہین باغ، سی اے اے کے بارے میں پچھلے کئی دنوں سے مظاہرے ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کیا یہ مظاہرہ محض ایک اتفاق ہے؟ نہیں، اس کے پیچھے سیاست کی ایک ڈیزائن ہے، جو ملک کی ہم آہنگی کو برباد کرنے والی ہے…… آئین اور ترنگا کو سامنے رکھتے ہوئے تقریر کر رہے ہیں“۔

انہوں نے کہاکہ ہر انسان اپنے تجربے کو بیان کرتا ہے اور وزیر اعظم بھی اپنا تجربہ بھی بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہی گرتا ہے جو برتن میں ہوتا ہے اور وزیر اعظم نے وہی کہا کہ جو ان کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہر حکومت اپنے وقار کا خیال رکھتی ہے اور وزیر اعظم کو بھی کچھ بھی بولنے سے پہلے اپنے عہدے کے وقار کاخیال رکھنا چاہئے۔

سماجی کارکن اور زیفکو گروپ کے چیرمین ظفیر احمد خاں نے وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ ان کی سوچ ہے اور ان کی سوچ کو ہم بدل نہیں سکتے۔ انہوں نے کہاکہ ہر عہدہ کا وقار ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے عہدے کے منافی ہے۔انہوں نے کہاکہ دہلی میں الیکشن ہونے والا اور ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لئے کوئی موضوع نہیں ہے۔ اس لئے وہ شاہین خاتون مظاہرین کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ وزیر داخلہ بھی اپنے عہدے کے وقار کے منافی باتیں کرتے رہے ہیں اور بٹن اتنا زور سے دبانے کی بات کرتے ہیں کہ ا س کا کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ انہوں نے کہاکہ آخر وہ شاہین باغ مظاہرین کے بارے میں الٹی سیدھی بات کرنے کے بجائے مظاہرین سے ملاقات کریں اور ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

پنجاب سے آنے والے سکھ درشن سنگھ نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت پر حملہ کیا اور کہاکہ جو بڑی بات کرکے اقتدار میں آئے تھے، اب حالت یہ ہوگئی کہ یہاں سے لوگ بنگلہ دیش جائیں گے کیوں کہ وہاں کاجی ڈی پی کافی اوپر ہے اور یہاں کا کافی گرگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس سیاہ قانون کے سلسلے میں بے چینی ہے اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ جو لڑائی آپ لوگوں نے چھیڑی ہے ہم یقین دلانے آئے ہیں کہ ہم مکمل ساتھ دیں گے اور ہم اس لڑائی کو لڑیں گے اور جیتیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جو حکومت میں ہیں وہ کرایہ دار ہیں مالک مکان نہیں ہیں کہ ہمیشہ رہیں گے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے تو وہ زبردست غلط فہمی میں ہیں۔

اسی کے ساتھ ہندوشدت پسندوں کے شاہین باغ آنے کی خبر سن کر سنگرور سے سکھوں کا ایک جتھہ شاہین باغ پہنچ گیا اور وہ لوگ شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم شاہین باغ میں اپنے بہنوں کی حفاظت کریں گے۔ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کوئی بال باکانہیں کرسکتا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ چار دنوں کے دوران دو بار فائرنگ کا واقعہ کے باوجود پوری شدت سے احتجاج جاری ہے۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے تلاشی کے ساتھ آنے جانے والوں پر نظر رکھ رہی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ گیٹ نمبر سات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کے بعد سے 15دسمبر سے احتجاج جاری ہے۔ پہلے یہ احتجاج چند گھٹوں کا ہوتا تھا لیکن حکومت پر کوئی اثر نہ پڑنے کی وجہ سے اسے 24 گھنٹے کا کردیا گیا۔ جامعہ مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اہم لوگ آرہے ہیں۔اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جارہاہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے،نظام الدین میں خواتین کامظاہرہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے یہاں ہر روز اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کے لئے کچھ نہ کچھ نیا کیا جارہا ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ پوری شدت سے جاری ہے اور اپنی آواز مزید مضبوطی سے پہنچانے کے لئے گزشتہ کل سے مظاہرین نے رات آٹھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ریلے بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔ پہلے دن کی بھوک ہڑتال میں عشرت جہاں، صدف خاں اور عظیم مہدی بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ خوریجی میں آج کے مقررین میں ریتو چودھری سابق چیرپرسن وومین کمیشن، ستروپا چکرورتی سابق یونین سکریٹری طلبہ جے این یو، آشیش دھا کلاسیکل سنگر اور ابو شمع شاعر شامل ہیں۔اسی کے ساتھ دہلی میں اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر‘ سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ،بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک،بیری والا باغ، نظام الدین،جامع مسجدسمیت ملک تقریباً سیکڑوں مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج کی خبر آرہی ہے اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اس احتجاجی دھرنا سے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر سنیلم نے بھی خطاب کیا ہے۔اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں اور یہ خواتین کا دھرنا ضلع سطح سے نیچے ہوکر پنچایت سطح تک پہنچ گیا ہے۔

اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ وہاں بھی پر دہلی اور اترپردیش پولیس کی طرح خواتین مظاہرین ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جیسے ہی پولیس کی ہٹانے کی خبر پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں خواتین پہنچ گئیں اور پولیس کو ناکام لوٹنا پڑا۔ یہاں پر بھی اہم لوگوں کا آنا جانا جاری ہے اور مختلف شعبہائے سے وابستہ افراد یہاں آرہے ہیں اور قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال،اجین، دیواس، مندسور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے لیکن خواتین میں بھی حوصلہ اور استقلال میں کی کمی نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود خواتین نے گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ پولیس نے احتجاج ختم کرانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں اس کے باوجود خواتین کا جوش و خروش کم نہیں ہوا ہے، سابق گورنر عزیز قریشی سمیت متعدد لوگوں پر ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن آج ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ،سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، چمپارن، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔

شاہین باغ،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ’دہلی،۔آرام پارک خوریجی-حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ،دہلی،۔جامع مسجد، دہلی،ترکمان گیٹ، دہلی،ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، شا،رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ بہار‘۔سبزی باغ پٹنہ - بہار، ہارون نگر،پٹنہ’۔شانتی باغی گیا بہار،۔مظفرپور بہار،۔ارریہ سیمانچل بہار،۔بیگوسرائے بہار،پکڑی برواں نوادہ بہار،مزار چوک،چوڑی پٹی کشن گنج‘ بہار،۔مگلا کھار‘ انصارنگر نوادہ بہار، چمپارن،مدھوبنی بہار،سیتامڑھی بہار، سمستی پور‘ تاج پور، سیوان بہار،۔گوپالگنج بہار،۔کلکٹریٹ بتیا مغربی چمپارن بہار،۔ہردیا چوک دیوراج بہار،۔ نرکٹیاگنج بہار، رکسول بہار، دھولیہ مہاراشٹر،۔ناندیڑ مہاراشٹر،۔ہنگولی مہاراشٹر،پرمانی مہاراشٹر،۔ آکولہ مہاراشٹر،۔ پوسد مہاراشٹر،۔کونڈوامہاراشٹر،۔پونہ مہاراشٹر۔ستیہ نند ہاسپٹل مہاراشٹر،۔سرکس پارک کلکتہ،۔قاضی نذرل باغ مغربی بنگال، اسلام پور مغربی بنگال،اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی،35۔روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی۔محمد علی پارک چمن گنج کانپور-یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان،۔کوٹہ راجستھان،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش،، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ اندور،احمد آباد گجرات، منگلور کرناٹک، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دھرنا جاری ہے۔ اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

یو این آئی۔ ع ا۔


Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 4:14 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.