راجیو گاندھی کے ساتھ پرنب دا کی کشمکش اور تنازع کو ایک لفظ میں اگر بیان کیا جاسکتا ہے وہ لفظ صرف 'سروائیور‘ (بچ جانے والا) ہوسکتا ہے۔
سیاسی میدان میں پرنب کی بقا اور ان کی صلاحیتیں قابل ذکر ہیں۔ 1984 میں راجیو گاندھی کے وزیراعظم بننے کے بعد پرنبدا کو کابینہ اور کانگریس ورکنگ کمیٹی سے خارج کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے کانگریس پارٹی کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔
پرنب مکھرجی نے 1986 میں اپنی ایک نئی پارٹی ’راشٹریہ سماج وادی کانگریس‘ قائم کی لیکن صرف دو سال بعد انہوں نے راجیو گاندھی کی حمایت میں آگے آئے اور اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کردیا۔ سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز کے باوجود وہ ہمیشہ آگے بڑھتے رہے۔
پرنب مکھرجی کی خصوصیات:
- انگریزی زبان پر ان کی پکڑ، مسودہ تیار کرنے میں مہارت، حافظہ کی پختگی، قومی اور بین الاقوامی امور پر وسیع معلومات اور پارلیمانی طریقہ کار کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نے انہیں کابینہ اور پارٹی میں ناگزیر بنادیا تھا۔
- جب کبھی بھی کابینہ میں کوئی پیچیدہ مسئلہ پیدا ہوتا تو پرنب کو اسے حل کرنے کی ذمہ دی جاتی۔ وہ ہمیشہ اے آئی سی سی کی قراردادوں کا مسودہ تیار کرتے اور مختلف کمیٹیوں کی بھی انہوں نے سربراہی کی۔
منموہن سنگھ کی حکومت میں پرنبدا
- ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کابینہ میں پرنب مکھرجی پہلے نمبر تھے۔
- وہ 95 رکنی وزرا کے بااختیار گروپ کے چیرمین تھے۔
- انہیں انرون، اسپیکٹرم، ڈبلیو ٹی او، بھوپال سانحہ اور دس انویسٹمنٹ جیسے مسائل پر بنائی گئی کمیٹیوں کا رکن بنایا گیا تھا۔
- پرنب مکھرجی نے تین وزرائے اعظم اندرا گاندھی، نرسمہا راؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومتوں میں کام کیا۔
- وہ واحد وزیر خزانہ ہیں جنہوں نے 1991 میں لائسنس اجازت نامہ کے تحت اصلاحات اور اقتصادی اصلاحات کے بعد بجٹ پیش کئے تھے۔
کچھ اہم فیصلے
- 2008 میں پرنبدا نے عالمی معاشی بحران کے چلتے بھارتی معیشت کی حالت سدھارنے کےلیے کئی جرات مندانہ فیصلے کئے۔
- 1993 میں وزیر خزانہ کی حیثیت وہ آزادانہ تجارت کے روح رواں تھے۔ لیکن چونکہ بھار نے جی اے ٹی ٹی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اسی لیے ڈرگس کی قیمتوں میں اضافہ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا لیکن پرنبدا نے اپنی دانشمندی سے ایسا ہونے نہیں دیا اور مناسب اقدامات کئے۔
- 8-2005 کے دوران بھارت۔امریکہ نیوکلئر معاہدہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس وقت بائیں بازوں کی جماعتیں نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کی مخالفت کی تھی اور وہ یو پی اے کا حصہ تھیں۔ لہذا یو پی اے اور بائیں بازو کی جماعتوں کے مابین ایک رابطہ کمیٹی پرنب مکھرجی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی جبکہ یہ کمیٹی نے اس مسئلہ پر بائیں بازو کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
- 2010 میں سول نیوکلیئر لیبلٹی بل کی منظوری میں بھی پرنبدا کی کاوشوں کو کبھی بھولا نہیں جاسکتا۔ ان کی ہی کوششوں کی وجہ سے اس بل پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔