گذشتہ روز 5 اگست کے پر اسرار سرگرمیوں سے گزرے فیصلہ سے قبل کشمیر کے معاملہ میں آل پارٹی میٹنگ کے دوران یہ کوشش شروع ہوئی تھی، کہ مرکز کی کسی بھی ممکنہ کاروائی کے مد نظر آل پارٹی جدوجہد کی تیاری رکھی جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال میں متحد ہو کر مودی حکومت کے خلاف سیاسی محاذ آرائی کی جاسکے۔
مگر یہ ساری کوشیش تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی نظر آرہی ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے مودی حکومت کا وہ حیران کن فیصلہ، جس میں ایک ہی ساتھ 370 میں ترمیم کرنا اور ریاست کو تقسیم کرنا شامل ہے۔
مودی حکومت کا یہ فیصلہ ان تمام پارٹیوں کے لئے اتنا چونکا دینے والا ثابت ہوا کہ اس مسئلہ پر اتحاد رائے مشکل ہو گیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کو ایک سینئر کانگریسی رہنما نے بتایا کہ کشمیر کے تعلق سے کانگریس دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں، حالانکہ کانگریس مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر مودی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان قضیوں پر جس سے کانگریس کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔ شاید یہی وجہ ہے کانگریس نے ایک ہی دن میں اپنے موقف میں نرمی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا۔
کشمیر سے جڑے ایک سینئر کانگریسی رہنما کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ کشمیر کی لڑائی لڑنا ہمارے حق میں نہیں، اس کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے ذمہ داروں نے جن حالات میں وزیر اعظم نریندررمودی سے ملاقات کی ہے، وہ شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہیں۔
کچھ اسی طرح کی صورتحال پی ڈی پی کی بھی ہے، پی ڈی پی ایسے حالات میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ لڑائی لڑنے سے گریز کر رہی ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس قائدانہ رول نبھانے کے اشارے دیرہی ہے، جس سے پی ڈی پی میں اتحاد کے تئیں خوشگواری محسوس نہیں ہو رہی ہے۔
دوسری طرف نیشنل کانفرنس کے ایک رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی پہلے ہی اپنی معتبریت کھو چکی ہے، اسی کئے یہ لڑائی نیشنل کانفرنس خود لڑے گی۔
ایسے حالات میں آل پارٹی متحدہ جدوجہد کے امکانات بنتے نظر نہیں آرہے، کم سے کام کانگریس تو متحدہ جدوجہد کی کوششوں میں کہیں نظر نہیں آرہی۔
جس کی وجہ سے براہ راست یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلہ کے خلاف آل پارٹی جدوجہد کیسے کامیاب ہوگی جب خود پارٹیوں میں اتحاد رائے نہیں ۔